لاہور میں بستی پر حملے پر احتجاج، مسیحی برادری نے اسکول بند کر دیے
12 مارچ 2013ہفتے کے روز لاہور میں جوزف کالونی میں ایک شخص پر توہین رسالت کے الزام کے بعد تین ہزار مسلمانوں کی جانب سے اس بستی کے درجنوں مکانات نذر آتش کر دیے جانے کے واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے مسيحی برادری کی جانب سے ملک میں قائم مسیحی مشنری اسکول بند رکھے گئے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان میں ایک مرتبہ پھر توہین مذہب اور توہین رسالت کے متنازعہ قانون کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے۔ پاکستانی قانون کے مطابق کسی شخص پر یہ الزامات ثابت ہو جائیں، تو اسے سزائے موت تک سنائی جا سکتی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے میں کاروباری افراد کے کردار کا جائزہ بھی لے رہی ہے کہ کہیں یہ واقعہ مسیحیوں کو علاقہ بدر کر کے ان کی زمین ہتھیانے کی کوشش تو نہیں۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کے پیچھے کسی مبینہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی سازش کی تحقیقات بھی کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ اس واقعے میں کوئی شخص ہلاک یا زخمی تو نہیں ہوا تھا تاہم ایک سو سے زائد مکانات خاکستر ہو جانے پر مسیحی برادری اور انسانی حقوق کے کارکنان حکومت سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لاہور میں کیتھولک بورڈ کے چیئرمین بشپ سباستیان شا نے اعلان کیا ہے کہ لوہر بھر میں قائم تمام مشنری اسکول اس واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے بند رہیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں یہ مشنری اسکول تعلیمی معیار کے لحاظ سے اعلیٰ ترین سمجھے جاتے ہیں جب کہ اکثر امیر مسلم گھرانوں کے بچے بھی انہیں اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جس کی وجوہات ان اسکولوں ميں نظم و ضبط کے بہتر اصول اور تعلیم کے لیے انگریزی زبان کا استعمال ہيں۔
چرچ حکام کے مطابق کراچی سمیت صوبہ سندھ کے تمام علاقوں اور جنوبی پنجاب میں قائم تمام مشنری درسگاہیں بھی پیر کے روز بند رہے۔
واضح رہے کہ مسیحیوں کے گھروں پر حملہ جوزف کالونی کے ایک رہائشی پر اس کے ایک مسلم دوست کی جانب سے پیغبر اسلام کے حوالے سے ’گستاخانہ‘ جملوں کے بعد ہوا۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے مسیحیوں کے گھروں پر حملہ کرنے والے جتھے میں شامل ہونے کے الزامات کے تحت اب تک 150 افراد کو حراست میں لے لیا ہے، جن میں سے 21 کو عدالت ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر چکی ہے، جب کہ دیگر 26 افراد کے خلاف تفتیش جاری ہے۔
(at/as (AFP