لبنان میں شامی مہاجرین کے لیے نہ جینے کی جگہ نہ مرنے کی
19 مئی 2016اس باپ نے تین برسوں میں اپنے تین بچوں کو موت کی نیند سوتے دیکھنا پڑا۔ تعمیراتی شعبے کے اس 29 سالہ مزدور باپ کا تعلق شامی شہر حلب سے ہے، تاہم شامی خانہ جنگی سے فرار ہو کر اس نے لبنان کے بقعا کے علاقے میں پناہ حاصل کی۔ ’’میں تین برسوں میں تین بچوں کا باپ بنا، ہر بار وہ فوت ہو گئے۔‘‘
’’مسئلہ یہ ہے کہ انہیں دفن کیسے کیا جائے‘‘، مصفطفیٰ کی آواز یہ جملہ ادا کرتے جیسے آنسوؤں میں ڈوب سی گئی۔
شام میں گزشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے ایک ملین سے زائد شامی باشندوں نے لبنان کا رخ کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان میں سے ایک تہائی شامی سرحد سے قریب واقع لبنانی وادیء بعقا میں پناہ گزین ہوئے۔
ہزاروں مہاجرین کی آمد کی وجہ سے ایک طرف تو ان افراد کی رہائش کا مسئلہ سنگین ہو گیا اور دوسری جانب مقامی قبرستان بھر جانے کی وجہ سے فوت ہونے والے افراد کے لیے قبر کی زمین تک کا ملنا محال ہوتا چلا گیا۔
پانچ برس قبل شام سے ہجرت کرنے والے مصطفیٰ اور ان کی بیوی نے تین ماہ ، پانچ دن اور دو گھنٹوں کی عمر کے بچوں کی موت دیکھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب اس جوڑے کے پہلے بچے کی موت واقع ہوئی، تو مصطفیٰ نے قریبی قصبے میں اپنے ایک جاننے والے سے رابطہ کیا، جس نے اس بچے کی قبر کے لیے اپنے اہل خانہ کو جائے تدفین میں ایک چھوٹا سے ٹکڑا مصطفیٰ کے بچے کے لیے دے دیا۔ پھر جب دوسرا بچہ فوت ہوا، ’’تو ہمیں مجبور کیا گیا کہ پم پنے والے بچے کی قبر کھود کو دوسرے کو بھی اسی جگہ دفن کریں۔‘‘
مصطفیٰ نے بتایا کہ تیسرا بچے کو مقامی مذہبی رہنماؤں کے تعاون سے ایک قریبی ضلعے میں تدفین کی جگہ دستیاب ہو گئی۔
’’ہم حکومت اور مذہبی رہنماؤں سے بس اتنی درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی جگہ دے دی جائے، جہاں کھیتی باڑی نہ ہوتی ہو اور اگرکوئی مہاجر فوت ہو جائے، تو اسے اس مقام پر دفن کیا جا سکے۔‘‘