لبنان میں ’کسی بھی کارروائی‘ کے لیے تیار ہیں، اسرائیل
23 جون 2024اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلینٹ نے اتوار کے روز امریکہ کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل کہا کہ ان کا ملک غزہ پٹی، لبنان اور اضافی علاقوں میں ''کسی بھی کارروائی‘‘ کے لیے تیار ہے۔ اس وقت امریکہ اور اسرائیل کے مابین تعلقات میں شدید تناؤ پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود گیلینٹ کا کہنا تھا، ''امریکہ ہمارا سب سے اہم اور مرکزی اتحادی ہے۔ ہمارے تعلقات اس وقت انتہائی اہم موڑ پر ہیں اور شاید پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔‘‘
اسرائیلی وزیر دفاع امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں غزہ پٹی کے ساتھ ساتھ لبنان کی سرحدی صورت حال کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے، جہاں سات اکتوبر کے بعد سے حزب اللہ ملیشیا اور اسرائیلی فورسز کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔
قبل ازیں امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے خبر دی تھی کہ امریکی ایوان نمائندگان کے سینئر ارکان نے ایک اسرائیلی وفد کو حزب اللہ کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی صورت میں مکمل امریکی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب بائیڈن انتظامیہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے مابین سفارتی روابط کشیدہ ہیں۔ ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کے تناظر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے گزشتہ منگل کو ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے امریکہ پر شدید تنقید کی تھی۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی اس ویڈیو کو ''پریشان کن اور مایوس کن‘‘ قرار دیا تھا۔
ایران نواز جنگجو حزب اللہ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں گے
کئی تجزیہ کار ایک عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ غزہ پٹی کی جنگ خطے کے دیگر ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے اور اب ان خدشات کو تقویت ملتی جا رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایرانی حمایت یافتہ جنگجو گروپوں اور مختلف مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ جنگ چھڑ گئی، تو ہزاروں جنگجو حزب اللہ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں گے۔
یوں تو سات اکتوبر کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیلی فورسز کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن شمالی لبنان کی صورت حال رواں ماہ اس وقت مزید خراب ہوئی، جب ایک اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں حزب اللہ کا ایک سینئر فوجی کمانڈر مارا گیا۔ حزب اللہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شمالی اسرائیل کی طرف سینکڑوں راکٹ فائر کیے اور مسلح ڈرونز بھیجے۔
آج بروز اتوار حزب اللہ نے ایک ایسی پروپیگنڈا ویڈیو بھی جاری کی، جس میں اسرائیل کی اہم تنصیبات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر جنگ ہوئی تو اسرائیلی فضائی دفاع کو توڑتے ہوئے ان اہم مقامات کو نشانہ بنایا جائے گا۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام نے دھمکی دی ہے کہ اگر حزب اللہ کو سرحد سے دور دھکیلنے کے لیے مذاکرات نہ کیے گئے تو لبنان میں فوجی کارروائی کی جائے گی۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران، لبنان، عراق، افغانستان اور پاکستان کے ایرانی حمایت یافتہ جنگجو شام کے 13 سالہ تنازعے میں ایک ساتھ مل کر لڑ چکے ہیں، جہاں انہوں نے شامی صدر بشار الاسد کے حق میں عسکری توازن قائم کرنے میں مدد کی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اب یہی جنگجو حزب اللہ کو اپنی مدد کی پیش کش کر چکے ہیں۔ اس کی تصدیق حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے بھی کی ہے۔ بدھ کے روز انہوں نے ایک تقریر میں کہا کہ ایران، عراق، شام، یمن اور دیگر ممالک کے عسکریت پسند رہنما حزب اللہ کی مدد کے لیے دسیوں ہزار جنگجو بھیجنے کی پیش کش کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تحریک کے پاس پہلے ہی ایک لاکھ سے زیادہ جنگجو موجود ہیں۔
حسن نصر اللہ نے کہا کہ فی الوقت حزب اللہ اپنی عسکری قوت کا صرف ایک حصہ استعمال کر رہی ہے۔ ان کا اشارہ میزائل فائر کرنے اور ڈرونز بھیجنے والے جنگجوؤں کے خصوصی یونٹ کی طرف تھا۔
عراق میں موجود ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروپوں کے ''مزاحمت کا محور‘‘ نامی اتحاد نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بھی حزب اللہ کے شانہ بشانہ لڑے گا۔ عراق کے کچھ عہدیداروں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسے عراقی گروپوں کے کچھ مشیر پہلے ہی لبنان میں ہیں۔
دوسری طرف خود اسرائیل بھی ایسے غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودہ تنازعے میں ممکنہ شرکت سے باخبر ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کی پالیسی پلاننگ کے سابق سربراہ ایرن ایٹزیون نے جمعرات کے روز واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اہتمام کردہ ایک پینل مباحثے میں کہا تھا کہ وہ ''متعدد محاذوں پر مبنی جنگ کا بہت زیادہ امکان‘‘ دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حوثیوں اور عراقی ملیشیاؤں کی طرف سے مداخلت ہو سکتی ہے اور ''افغانستان، پاکستان سمیت متعدد مقامات سے جہادیوں کا بڑے پیمانے پر بہاؤ‘‘ لبنان اور اسرائیل کی سرحد سے ملحقہ شامی علاقوں کی طرف ہو سکتا ہے۔
ا ا / م م، ع ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)