لداخ: چین ایک اور مقام سے فوجیں پیچھے ہٹانے پر متفق
3 اگست 2021بھارت میں حکومتی ذرائع کے مطابق مشرقی لداخ میں دونوں فوجوں کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لیے جو بات چیت اختتام ہفتہ ہوئی تھی، اس میں لائن آف ایکچول کنٹرول کی ایک پوسٹ سے چین اپنی فوجیں پیچھے کرنے پر راضی ہو گیا ہے اور اب اس کے طریقہ کار پر غور و فکر کیا جا رہا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ ایک برس سے بھی زیادہ وقت سے مشرقی لداخ کے کئی علاقوں میں سرحد پر کشیدگی کا ماحول ہے اور دونوں جانب کی فوجیں اب بھی کئی علاقوں میں سرحدوں پر مورچہ سنبھالے بیٹھی ہیں۔ اسی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے ہفتے کو بارہویں دور کی بات چيت شروع ہوئی تھی۔
میٹنگ کے بعد فریقین نے گزشتہ روز ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا، ’’دونوں فریقوں نے اتفاق کیا ہے کہ یہ ملاقات تعمیری تھی جس سے باہمی افہام و تفہیم میں مزید اضافہ ہوا۔ فریقین نے ان باقی مسائل کو موجودہ معاہدوں اور پروٹوکول کے مطابق تیزی سے حل کرنے اور مذاکرات کی رفتار کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔"
حکام کے مطابق بات چيت کے دوران ایل اے سی پر پیٹرولنگ پوائنٹ 17 اے سے فوجیوں کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق ہوا ہے۔ اس مقام کو 'گورگا پوسٹ'بھی کہا جاتا ہے۔
بھارتی میڈیا میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے کہا گيا ہے، ’’پوسٹ 17 اے سے پیچھے ہٹنے پر تو اتفاق ہو گيا ہے، تاہم اسی علاقے میں چین نے ہاٹ اسپرنگ یا پھر 15ویں پوسٹ سے پیچھے ہٹنے سے منع کر دیا ہے۔ چین کا اصرار اس بات پر ہے کہ پیٹرولنگ پوسٹ 15 اس کا اپنا علاقہ ہے۔‘‘
اطلاعات کے مطابق کور کمانڈر سطح کی بات چیت کے بعد یہ تجاویز حکومت کو پہنچا دی گئی ہیں اور اب فوجیوں کو وہاں واپس کس طرح بلایا جائے اس کے طریقہ کار پر غور و فکر ہو رہا ہے۔ خبروں کے مطابق آئندہ چند روز کے اندر ہی وہاں سے فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کا کام شروع کر دیا جائے گا۔
اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ عبوری طور پر ’وہ مغربی سیکٹر میں ایل اے سی پر استحکام کو یقینی بنانے اور مشترکہ طور پر امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی موثر کوششیں جاری رکھیں گے‘۔
اب فوجی انخلا کب تک مکمل ہونا ہے اس کی تاریخ مقرر کرنا ہوگی اور اس کے بعد وہاں پر موجود عارضی فوجی انفراسٹرکچر کو ختم کرنا ہو گا۔
تاہم حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بار کے مذاکرات میں میدانی علاقے ڈیسپنگ اور ڈیمچوک کے علاقوں کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ بھارتی حکام کے مطابق مشرقی لداخ کے ڈیمچوک علاقے میں چین نے مختلف مقامات پر اپنے ٹینٹ نصب کر رکھے ہیں۔
بھارت میں دفاعی ماہرین کے مطابق گزشتہ برس مئی میں فریقین کے درمیان زبردست کشیدگی کے ماحول میں چینی فوج نے دریائے گلوان کی وادی، میدانی علاقے ڈیپسنگ، پیونگانگ سو جھیل، ہاٹ اسپرنگ اور گوگرا جیسے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت سے سرحدی علاقوں میں حالات کشیدہ رہے ہیں۔
بارہ ادوار کی بات چيت کے بعد اب تک صرف گورگا اور پینگانگ سو جھیل کا ہی تصفیہ ہو سکا اور اس میں بھی اگر چین نے دو قدم پیچھے کیے ہیں، تو بھارت کو چار قدم مزید پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔
ایل اے سی پر حالات کیا ہیں؟
بھارتی حکام کے مطابق مشرقی لداخ میں اب گزشتہ برس جیسی شدید کشیدگی نہیں ہے تاہم اس پیچیدہ صورت کے حال کی اہم وجہ دونوں میں باہمی اعتماد کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی فریقین نے اپنی اپنی جانب تقریبا پچاس ہزار کے قریب فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔
بھارتی حکام کے مطابق چین اپنی جانب کے فوجیوں کو تبدیل بھی کرتا رہا ہے اور وہ مشرقی لداخ میں، 'فوجیوں کی رہائش گاہوں کی تعمیر، اسلحہ ذخیرہ کرنے اور توپ خانوں کی پوزیشنیں مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی سے عسکری ڈھانچے تعمیر کر رہا ہے‘۔
اس دوران بھارت نے بھی خطے میں دفاعی نکتہ نظر سے اہم ساز و سامان کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے اور لداخ میں نئے ہتھیار پہنچائے ہیں۔ گزشتہ برس اگست اور ستمبر میں اسی علاقے میں برسوں بعد وارننگ شاٹس بھی فائرکیے گئے تھے۔
طویل سرحدی تنازعہ
بھارت اور چین میں شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر کی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان طویل سرحدی تنازعہ بھی ہے۔
ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ ایک برس سے بھی زیادہ وقت سے مشرقی لداخ کی وجہ سے کشیدگی کا ماحول ہے۔
گزشتہ برس پندرہ جون کی درمیانی شب مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم سے کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر گزشتہ برس اپریل تک جو پوزیشن تھی، اس کو بحال کیا جائے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجوں کو پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔
بھارت میں اس پر کافی تشویش پائی جاتی ہے تاہم حکومت کا رویہ محتاط ہے اور ابھی تک سفارتی یا پھر فوجی سطح پر بیان بازی سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔