لندن میں جولیان اسانج کی ملک بدری کے لیے سماعت، برلن خاموش
1 مئی 2019وکی لیکس کے 47 سالہ بانی اور آسٹریلوی شہری جولیان اسانج کو آج بدھ یکم مئی کو برطانوی دارالحکومت لندن کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا، تو عدالت نے انہیں 50 ہفتے سزائے قید کا حکم سنا دیا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ سات سال قبل جب اسانج کو برطانوی عدلیہ نے ضمانت پر رہا کیا تھا، تو یہ آسٹریلوی شہری برطانیہ سے اپنی ممکنہ ملک بدری کے بعد سویڈن بھیجے جانے سے بچنے کے لیے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
جولیان اسانج نے 2012ء میں لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی اور وہاں سے انہیں گزشتہ ماہ کی 11 تاریخ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ قریب سات سال قبل اسانج نے لندن میں اپنی ضمانت کی قانونی شرائط کی خلاف ورزی اس لیے کی تھی کہ برطانوی حکام انہیں ملک بدر کر کے سویڈن نہ بھیجیں، جہاں ان کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جانا تھا۔
تب اسانج کو یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر انہیں برطانیہ سے سویڈن بھیج دیا گیا، تو سویڈش حکام انہیں دوبارہ ملک بدر کر کے امریکا کے حوالے کر دیں گے، جہاں ان کو اپنے خلاف قانونی الزامات کا سامنا ہے۔ ان الزامات کا تعلق افغانستان اور عراق کی جنگوں میں واشنگٹن کے کردار کے بارے میں ان خفیہ امریکی دستاویزات سے ہے، جو وکی لیکس نے شائع کر دی تھیں۔
امریکا برطانیہ سے یہ درخواست کر چکا ہے کہ وہ جولیان اسانج کو ملک بدر کر کے واشنگٹن کے حوالے کرے۔ خود اسانج اپنی برطانیہ سے امریکا ملک بدری کے خلاف قانونی جنگ لڑنا چاہتے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس بارے میں لندن میں عدالت کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ سنائے جانے میں ممکنہ طور پر برسوں لگ سکتے ہیں۔
دوسری طرف اسانج کو انہیں آج سنائی جانے والی ساڑھے گیارہ ماہ کی سزائے قید کے بعد کل جمعرات دومئی کو دوبارہ ایک برطانوی عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔ یہ عدالت ان کی امریکا ملک بدری سے متعلق مقدمے میں اپنی ابتدائی سماعت دو مئی سے شروع کر رہی ہے۔
جرمن حکومت خاموش
اسانج کی امریکا ملک بدری سے متعلق اس مقدمے کی سماعت کے آغاز پر کئی حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات بظاہر جرمن حکومت کے لیے کسی تشویش کا باعث نہیں ہے کیونکہ برلن نے اس بارے میں اب تک مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایک اہم بات اس حوالے سے لندن میں ایکواڈور کے سفیر کا ایک بیان بھی ہے۔
برطانیہ میں ایکواڈور کے سفیر خائمے مارچان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی محکمہ انصاف نے ان کے سفارت خانے کو ایک باقاعدہ درخواست دے دی ہے، جس میں اس سلسلے میں معلومات طلب کی گئی ہیں کہ ایکواڈور کے سفارت خانے میں کئی برسوں تک قیام کے دوران جولیان اسانج کس طرح کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔
لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے کو امریکا کی یہ درخواست ایکواڈور کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے ذریعے موصول ہوئی۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ امریکا اور ایکواڈور کے حکام خفیہ طور پر آپس میں اس لیے اعلیٰ ترین سطح پر تعاون کرتے رہے ہیں کہ برطانیہ سے اسانج کے امریکا کے حوالے کیے جانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
جرمنی میں اسانج کے لیے سیاسی حمایت
جرمنی میں ایک سے زائد سیاسی جماعتیں اس امکان کے خلاف ہیں کہ اسانج کو برطانیہ سے ملک بدر کر کے امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔ گیارہ اپریل کو جب اسانج کو گرفتار کیا گیا تھا، تو تقریباﹰ اسی وقت چند جرمن سیاستدانوں نے ان سے ایکواڈور کے سفارت خانے میں ملاقات کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔
وکی لیکس کے بانی کی گرفتاری کے بعد لندن ہی میں پندرہ اپریل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت لیفٹ پارٹی کی ایک وفاقی رکن پارلیمان سیوِم ڈاگڈیلین نے واضح طور پر کہہ دیا تھا، ’’ہمارا مقصد اسانج کے امریکا کے حوالے کیے جانے کو روکنا ہے۔‘‘
اس موقع پر لندن میں اسانج کے حق میں کیے جانے والے ایک مظاہرے میں جرمن پارلیمانی نمائندے بھی شریک ہوئے تھے۔ ان میں لیفٹ پارٹی کی خاتون رکن پارلیمان داگڈیلین، لیفٹ پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والی ہائیکے ہَینزل اور ماحول پسندوں کی جرمن سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی یورپی پارلیمان کی رکن آنا میرانڈا بھی شامل تھیں۔
ان جرمن سیاستدانوں کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے اپنی طرف سے جولیان اسانج کی برطانیہ سے ملک بدری کے لیے چھ صفحات پر مشتمل جو فرد جرم پیش کی ہے، اگر اس کا نتیجہ واشنگٹن کی خواہشات کے مطابق رہا، ’’تو یہ دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے ایک خطرناک بات ہو گی۔ اس کا مطب یہ بھی ہو گا کہ صرف یورپی یونین میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کام کرنے والے صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی کے باعث مجرم ٹھہرا کر ان کی امریکا ملک بدری کی ایک خطرناک مثال قائم ہو جائے گی۔‘‘
م م / ک م / ڈی ڈبلیو، اے ایف پی