لندن میں طلبا کا پرتشدد احتجاج، پولیس کے ساتھ تصادم
25 نومبر 2010دارالحکومت لندن میں مشتعل طلبا نے پولیس کی ایک گاڑی پر حملہ بھی کیا۔ وہاں رواں ماہ کے دوران فیسوں میں اضافے کے منصوبے کے خلاف یہ دوسرا بڑا احتجاج تھا، جس میں تقریباﹰ 10 ہزار افراد شریک ہوئے۔ اس دوران انہوں نے احتجاجی ریلی کے رُوٹ پر کھڑی ایک پولیس وین کو گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے گاڑی کو الٹانے کی کوشش کی، اس کے شیشے توڑ دیے اور اس کے اوپر چڑھ کر اچھل کُود کی۔
دوسری جانب بدھ کے مظاہروں کے تناظر میں سینکڑوں پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے، جنہوں نے ایک موقع پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج بھی کیا۔
مظاہرین نے وائٹ ہال پر ایک بس سٹاپ بھی نذرآتش کر دیا۔ لندن کے اس علاقے میں متعدد حکومتی دفاتر قائم ہیں۔
پولیس نے آٹھ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ جھڑپوں میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، ان میں سے ایک اہلکار کا بازو ٹوٹ گیا ہے، جبکہ دوسرا بے ہوش ہو گیا تھا۔ پولیس کے مطابق چھ مظاہرین کو بھی معمولی زخمی آئے ہیں۔
لندن میں دفتر خارجہ کے باہر بھی مظاہرے ہوئے۔ طلبا نے دفاتر کی سفید دیواروں پر ’انقلاب‘ اور اس نوعیت کے دیگر نعرے درج کئے۔ کچھ طلبا نے دیواریں پھلانگ کر عمارت میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔ دیوارکودنے والی ایک طالبہ نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ہم نے یہ قدم اس لئے اٹھایا تاکہ حکومت کو ہمارے غصے کا اندازہ ہو سکے۔‘
15 سالہ بیتھینی ہاکر نے کہا، ’میں یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتی ہوں، مجھے زندگی میں کچھ کر دکھانے کی تمنا ہے، لیکن فیسوں میں اضافے سے میرے لئے ایسا کرنا ناممکن ہوگا۔‘ ہاکر نے تسلیم کیا کہ اس نے مظاہرے میں شرکت کے لئے بدھ کو اپنے سکول سے چھٹی کی۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ایک ترجمان نے پرتشدد مظاہروں کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’عوام کو قانونی اور پر امن مظاہروں کا حق حاصل ہے لیکن تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں۔‘
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو دیگر برطانوی شہروں میں بھی ایسے ہی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ مانچسٹر اور برائٹن میں مظاہرین کی تعداد تین ہزار بتائی گئی ہے جبکہ کیمبرج میں بھی مظاہرے ہوئے۔ دُنیا کی معتبر ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک اسی شہر میں ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل /خبررساں ادارے
ادارت: افسر اعوان