لندن: ’یورپی یونین سے منہ نہ موڑو‘، اوباما کا دوستانہ مشورہ
22 اپریل 2016اوباما، جو رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق برطانیہ میں بہت مقبول ہیں، جمعرات کو لندن پہنچے تھے۔ ان کا ایک مضمون برطانوی جریدے ’ڈیلی ٹیلیگراف‘ میں شائع ہوا ہے، جس میں امریکی صدر نے یورپی یونین میں برطانیہ کی رکنیت کو بے حد سراہا ہے۔ اوباما کے مطابق یورپی یونین نے دنیا کو ایک زیادہ آزاد اور متنوع مقام بنانے اور مہاجرت سے لے کر دہشت گردی تک مختلف چیلنجوں سے بہتر طور پر نمٹنے میں مدد دی ہے۔
23 جون کومجوزہ ریفرنڈم میں برطانوی ووٹرز بدستور یورپی یونین میں شامل رہنے یا اس کو چھوڑ دینے کے حق میں رائے دینے والے ہیں۔ اوباما نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:’’یورپی یونین کی رکنیت برطانوی اثر و رسوخ کو کم نہیں کرتی بلکہ بڑھا دیتی ہے، مَیں ایک دوست کے طور پر آپ کو بتا رہا ہوں کہ یورپی یونین میں رکنیت برطانیہ کو عظیم تر بناتی ہے۔‘‘
اوباما کے یہ تاثرات برطانیہ میں شہ سرخیوں کا موضوع بن رہے ہیں۔ اوباما نے کہا ہے کہ امریکا اپنے سب سے قریبی حلیف یعنی برطانیہ کو آئندہ بھی اس بلاک میں، جس کا وہ 1973ء میں رکن بنا تھا، شامل دیکھنا چاہتا ہے۔ اوباما کے مطابق امریکا اس اٹھائیس رکنی یورپی بلاک کو استحکام کے ایک ستون کے طور پر دیکھتا ہے اور برطانیہ اس میں شامل رہ کر اپنی تجارت کو بڑھا سکتا ہے اور یورپی یونین کو بھی مضبوط تر بنا سکتا ہے۔ اوباما لکھتے ہیں:’’امریکا دیکھ رہا ہے کہ کیسے آپ کی طاقتور آواز کے باعث اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ یورپ دنیا میں ایک مضبوط موقف اپنائے۔‘‘
جمعے کے روز اوباما اور ان کی اہلیہ مِشیل ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک ہزار سال پرانی تاریخ کی حامل شاہی رہائش گاہ وِنڈسر کاسل پہنچے اور ملکہ الزبتھ اور ان کے شوہر پرنس فلیپ کے ساتھ ایک ظہرانے میں شرکت کی۔ جمعرات کو ملکہ نے اپنی نوّے ویں سالگرہ منائی تھی۔ جمعے کو ہی اوباما ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں، جس کے بعد وہ ایک نیوز کانفرنس سے بھی خطاب کریں گے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی ایک خاتون ترجمان نے ریفرنڈم کے حوالے سے اوباما کی مداخلت کا خیر مقدم کیا ہے تاہم یونین میں رکنیت کے مخالف برطانوی حلقوں نے اوباما کے بیان پر شدید تنقید کی ہے۔ ’آؤٹ‘ مہم کے سربراہ اور لندن کے میئر بورس جانسن نے کہا کہ ’ہمیں یورپی یونین میں رکنیت کے حوالے سے امریکا کے لیکچر کی ضرورت نہیں ہے‘۔ حالیہ عوامی جائزوں میں یونین میں شمولیت کی طرف جھکاؤ رکھنے والے برطانوی ووٹرز اکثریت میں دکھائی دیتے ہیں۔