'لو جہاد‘ شادی کے حق میں فیصلہ
8 مارچ 2018نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس عورت کے شوہر پر بھارت کی سرکاری ایجنسی کی جانب سے لوگوں کو دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں شامل کرنے کے الزام کا سامنا تھا۔ اس شادی کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ’لو جہاد‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ’لو جہاد‘ کا استعمال ہندو انتہا پسند ان شادیوں کے لیے کرتے ہیں جن میں مسلمان مرد ہندو عورتوں کا مذہب تبدیل کروا کر ان سے شادیاں کر لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے جنوبی ریاست کیرالہ کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے اس 24 سالہ خاتون کی شادی کو جائز قرار دے دیا ہے۔ اس خاتون نے شادی سے قبل اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا اور اپنا نام آکھیلا سے حادیہ رکھ لیا تھا۔
اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کہا، ’’ عدالتوں کے پاس اپنی مرضی سے شادی کرنے والے دو بالغ افراد کی شادیوں کو ناجائز قرار دینے کا حق نہیں ہے۔‘‘ اس بنچ کی سربراہی بھارت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کر رہے تھے۔
بھارت کیے سرکاری ادارے ’دی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی‘ نے جنوبی ریاست کیریلا کی ہائی کورٹ کو کہا تھا کہ حادیہ کو ایک مسلمان مرد جس کے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ براہ راست تعلقات ہیں، نے غلط معلومات فراہم کر کے اسے اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ کیریلا کی عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حادیہ کی شادی کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور اس لڑکی کو اپنے والد کی تحویل میں دے دیا تھا۔
حادیہ نےسپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے قبل ہائی کورٹ میں اپنے شوہر پر لگائے گئے الزامات کو رد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس ایجنسی کو ان افراد کے خلاف اپنی تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دے دیا تھا جن پر یہاں کے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے کا الزام تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ لوگ مبینہ طور پر ہزاروں افراد کو مشرق وسطیٰ بھیج دیتے ہیں جہاں وہ دہشت گرد تنثیم ’اسلامک اسٹیٹ’ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
مسلم شہری بھارت کی کل آبادی کا چودہ فیصد ہیں۔ جبکہ بھارت کی 1.3 ارب آبادی میں ہندو 79 فیصد ہیں۔
ب ج/ ع ط، روئٹرز