لوئی وِل کا ایئر پورٹ عظیم باکسر محمد علی کے نام
18 جنوری 2019محمد علی امریکی ریاست کینٹکی کے شہر لوئی ِیل میں پیدا ہوئے تھے۔ باکسنگ میں ان کا کیریئر ایک شوقیہ کھلاڑی کی حیثیت سے تھا لیکن ان کوشہرت اس وقت حاصل ہوئی، جب 1960ء میں روم اولمپکس میں انہیں باکسنگ ڈسپلن میں سونے کا تمغہ حاصل ہوا۔
لیکن تمغہ جیتنے کے بعد جب محمد علی اپنے شہر واپس آئے تو وہ نسلی امتیاز کا شکار ہوگئے۔ ایک ریستوران میں انہیں اس لیے نوکری نہ مل سکی کیونکہ وہ سیاہ فام تھے اور اس واقعے کے نتیجے میں انہوں نے اپنا سونے کا تمغہ دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔
اس باکسنگ چیمپیئن نے خود کو ہمیشہ عظیم تر انسان ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے کام سے یہ ثابت بھی کیا کہ ایک بڑا انسان بننےکے لیے صرف ارادے اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ زندگی کے کئی مشکل امتحان جیتنے والا یہ انسان اپنی سب سے طویل جنگ "پارکنسنس سنڈروم" نامی مرض سے ہار گیا۔ وہ دس برس تک رعشے بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔
محمد علی کو خوبیوں کا قلعہ بھی کہا جاتا تھا۔ وہ ایک اچھے باکسر، ایک رحم دل انسان، انسانیت کا درد رکھنے والے چیمپئن، مخالفین کو اپنی حاضر جوابی سے چپ کرا دینے والے ہردلعزیز شخص بھی تھے۔ عام طور پر لوگ محمد علی کو ایک باکسر کے طور پر جانتے ہیں مگر وہ جتنے اچھے باکسر تھے اسے سے کہیں بڑے انسان بھی تھے۔ باکسنگ رنگ میں مخالفوں کو ایک مکے سے چت کردینے والا محمد علی عملی زندگی میں انسانیت دشمن سوچ رکھنے والے افراد کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ تھا۔ باکسنگ رنگ کے ساتھ ساتھ ان کی سیاہ فام امریکیوں کے حقوق اور انسانیت کے لیے خدمات بھی قابل صد ستائش ہیں۔
میئر گریگ فشر نے ایک بیان میں کہا۔’’محمدعلی ... نے بشریت اور اخلاقیات کا ایک ورثہ چھوڑا ہے، جس سے اربوں افراد مستفید ہورہے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ ہم، اس شہرکے ائیر پورٹ کواس چیمپئن کی عظمت کے نام کریں۔‘‘
لوئی ویل ہوائی اڈے کو محمد علی لوئی ویل انٹرنیشنل ایئر پورٹ بنائے جانے پر اس عظیم باکسر کی بیوہ کافی خوش ہیں۔ وہ یہ کہتی ہیں کہ یہ شہر محمد علی کی شخصیت کا عکاس ہے۔
محمد علی اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر جب تک دنیا قائم ہے انہیں ایک عظیم باکسر اور ایک عظیم انسان کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ محمدعلی کے بقول ”وہ باکسنگ کو مس نہیں کریں گے باکسنگ رنگ ان کو ہمیشہ مس کرے گا۔“
رافعہ اعوان