لوگ آخر خود کشی کیوں کرتے ہیں؟
9 ستمبر 2020دنیا بھر کے ایسے انسانوں کے لیے، جنہیں پہلے ہی سے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا تھا، کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس کی عالمی وبا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی ہے۔
خود کشی کی روک تھام کے جمعرات دس ستمبر کو منائے جانے والے عالمی دن کی مناسبت سے ماہرین کی طرف سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سماجی سطح پر فاصلے رکھنا ناگزیر تو ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عام لوگ معاشرتی طور پر ایک دوسرے سے بالکل کٹ کر رہ جائیں۔
مہلک عالمی وبا کے اثرات
نفسیاتی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا کو دنیا بھر میں پھیلے کئی ماہ ہو چکے ہیں اور آج بھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس وبا پر کب تک قابو پایا جا سکے گا۔ ایسے میں عام انسانوں کا سماجی طور پر ایک دوسرے کے پاس نہیں تو ایک دوسرے کے لیے موجود ہونا اس وجہ سے بہت اہم ہے کہ بے شمار انسانوں کو موجودہ حالات میں خود کشی سے جڑے خیالات اور ذہنی دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
جرمنی میں خود کشی کی روک تھام کے قومی پروگرام کی شریک سربراہ ڈاکٹر باربرا شنائڈر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اہم ترین بات یہ ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں، عام لوگوں کو، ہم سب کو، یہ احساس رہنا ہی چاہیے کہ ہم سب آج بھی ایک دوسرے کے لیے موجود ہیں۔‘‘
دس ستمبر، خود کشی کی روک تھام کا عالمی دن
دس ستمبر کو ہر سال دنیا بھر میں خود کشی کی روک تھام کا دن WSPD منایا جاتا ہے، جس کا اہتمام خود کشی کے تدارک کی عالمی تنظیم IASP کرتی ہے۔ یہ تنظیم یہ عالمی دن عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے مناتی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان انسانوں کی موت کا سوگ منانا ہوتا ہے، جو آج تک خود کشی کر چکے ہیں۔
لیکن یہ دن منانے کا اس سے بھی زیادہ اہم مقصد بین الاقوامی سطح پر خود کشی کے رجحان کی روک تھام بھی ہے، جس دوران عالمی سطح پر یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ عام لوگوں کو سماجی سطح پر ہمیشہ ایک دوسرے کا دھیان بھی رکھنا چاہیے۔
جسمانی نہیں تو جذباتی طور پر سہارا
جرمنی کی ڈاکٹر باربرا شنائڈر کہتی ہیں، ''کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں ہم سب جانتے ہیں کہ ہم اپنے پیاروں کے پاس جا کر انہیں نہ مل سکتے ہیں نہ انہیں گلے لگا سکتے ہیں۔ لیکن اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے انسانوں کے لیے یہ احساس زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ جسمانی طور پر نہیں تو ان کے عزیز، اقرباء اور دوست کم از کم جذباتی طور پر اور ضرورت کے لمحے میں اپنی محبت کے ساتھ ہمیشہ ان کے ہمراہ ہوتے ہی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر شنائڈر کے بقول، ''ہم سب کے لیے یہ احساس بہت زیادہ ہمت اور حوصلہ دینے والا ہوتا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کے لیے اہم ہیں اور دوسرے ہماری فکر کرتے ہیں۔‘‘
ہر سال آٹھ لاکھ خود کشیاں
مسلمہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباﹰ آٹھ لاکھ انسان خود کشی کر لیتے ہیں۔ ان بہت ناامید ہو جانے والے انسانوں میں ایسے خواتین و حضرات بھی ہوتے ہیں جو بظاہر بڑے بڑے خاندانوں کے رکن ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ بھی شدید حد تک تنہائی اور ناامیدی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی جان لے لینے والے ایسے انسانوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو اکیلے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ انسانی خود کشی کا ہر واقعہ خود کشی کرنے والے انسان سے خاندانی، سماجی اور روزگار کی وجہ سے تعلق رکھنے والے اوسطاﹰ 135 دیگر افراد کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس طرح خود کشی کا عمل ہر سال مجموعی طور پر 108 ملین انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔
مختلف ممالک میں خود کشی کی شرح مختلف
بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے شہریوں میں خود کشی کے رجحان کی شرح بھی مختلف ہے۔ جرمنی میں گزشتہ چند عشروں کے دوران خود کشی کی وجہ سے انسانی اموات میں کافی کمی ہوئی ہے۔
اس کے باوجود جرمنی میں آج بھی خود کشی کرنے والوں کی سالانہ تعداد سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
جرمنی میں اس بارے میں تازہ ترین لیکن حتمی سالانہ اعداد و شمار 2018ء کے ہیں۔ دو سال قبل یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں 9,300 افراد نے خود کشی کی تھی۔
آن لائن مدد
جرمنی سمیت مغربی دنیا کے درجنوں ممالک میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایسی آن لائن مدد کے امکانات گزشتہ کئی عشروں سے دستیاب ہیں، جن کے ذریعے خود کشی کرنے کے بارے میں سوچنے والے شہری فوری طور پر مدد اور رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی خود کشی کی صرف کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ عمل ہمیشہ کئی مختلف عوامل کے اثرات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر باربرا شنائڈر کے مطابق خود کشی کے خطرے سے دوچار افراد کو باقی تمام انسانوں کی طرح ایک بات کا ہمیشہ علم بھی ہونا چاہیے اور یقین بھی: ''رابطہ کیجیے، بات کیجیے، مدد ممکن ہے۔‘‘
ریبیکا شٹاؤڈن مائر (م م / ع ا)