لوگوں کی جاسوسی کے بہت سے طریقے ہیں، اعلیٰ امریکی مشیر
13 مارچ 2017چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے ٹوئٹر پیغامات میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ صدارتی مہم کے دوران باراک اوباما کے حکم پر ان کے ٹیلی فون سنے گئے تھے۔ اس بیان کے بعد ان پر تنقید کی جا رہی تھی کہ ایسی صورت میں الزام عائد کرنے کی بجائے ٹرمپ کو شواہد پیش کرنا چاہیے تھے۔
ٹرمپ کی مشیر کونوے نے وکی لیکس پر حال ہی میں منکشف ہونے والی ان دستاویزات کے تناظر میں کہا کہ ممکنہ طور پر صدر اوباما نے ٹرمپ کی نگرانی کے لیے دیگر طریقے بروئے کار لائے ہوں گے، کیوں کہ خفیہ اداروں کے پاس لوگوں کی نگرانی کے کئے راستے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا تاہم کہنا ہے کہ کونوے کے اس بیان کے باوجود ٹرمپ پر جاری تنقید میں کمی واقع نہیں ہو گی۔ پیر کے روز ایک امریکی نشریاتی ادارے اے بی سے کے ایک پروگرام میں ٹرمپ کے الزامات کے حوالے سے شواہد کی بابت پوچھے جانے والے ایک سوال پر کونوے نے کہا، ’’میرے پاس اس کے جواب میں ثبوت یا شواہد نہیں مگر مجھے خوشی ہے کہ وائٹ ہاؤس کی کمیٹی اس کی تفتیش کر رہی ہے۔‘‘
بعد میں اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کونوے نے مزید کہا، ’’امریکی انتظامیہ کو خوشی ہے کہ کانگریس کی ایک کمیٹی بھی اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بغیر شواہد کے سابق صدر پر الزامات عائد کیے۔ سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ میں نیشل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کے بہ طور کام کرنے والے جیمز کلیپر پہلے ہی ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔
دوسری جانب وکی لیکس نے رواں ماہ قریب آٹھ ہزار خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ سی آئی اے کس طرح نگرانی کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتی ہے، جن میں کمپوٹرز، موبائل فونز اور حتی کہ اسمارٹ ٹی وی بھی ہیک کیے جاتے ہیں۔
اے بی سی کے پروگرام میں شریک وائٹ ہاؤس کی اعلیٰ مشیر کونوے کا اسی حوالے سے کہنا تھا کہ ان دستاویزات سے معلوم چلتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے یہ دعوے درست ہیں۔ کونوے کا کہنا تھا، ’’میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ بدقسمتی سے نگرانی کے بہت سے طریقے ہیں۔ مائیکرو ویو بھی کسی کیمرے میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ ہم اسے جدید زندگی کی ایک حقیقت ہی کہہ سکتے ہیں۔‘‘