ليبيا کی تعمير نو اور اس کا پيسہ، پيرس کانفرنس کا اہم موضوع
2 ستمبر 2011کل پيرس ميں ہونے والی کانفرنس ميں 60 سے زائد ممالک اور بين الاقوامی تنظيموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پيرس کے قصر ايليزے ميں اتنے زيادہ ممالک کی نمائندگی تھی کہ ہر ملک کا نمائندہ صرف ايک مختصر تقرير ہی کر سکا۔ کوئی مباحثہ بھی نہيں ہو سکا۔ جمہوريت کے آغاز کے ليے جو منصوبہ تيار ہونا تھا، وہ بھی تشکيل نہيں ديا گيا۔
ليکن تمام ہی ممالک نے ليبيا کی منجمد رقوم کو غير منجمد کرنے کی حمايت کی۔ فرانس کے صدر اور اس کانفرنس کے ميزبان نکولا سارکوزی نے کہا کہ ليبيا کے عوام کا پيسہ ان کو واپس ملنا چاہيے۔
کانفرنس ميں جرمن چانسلر انگیلا ميرکل بھی شريک ہوئيں۔ اُنہوں نے اعلان کيا کہ جرمنی بھی فرانس اور برطانيہ کی طرح ليبيا کی منجمد رقوم ميں سے ايک ارب يورو تک باغیوں کی رسائی کو ممکن بنا دے گا۔ اس کے علاوہ جرمنی ليبيا کی تعمير نو ميں بھی مدد دينا چاہتا ہے: ’’ہم صاف پانی کی فراہمی، ہسپتالوں کی مرمت و تعمير اور اقتصادی ڈھانچے کی تعمير ميں ٹھوس مدد دے سکتے ہيں۔‘‘
ليکن جرمنی کے، ليبيا ميں فوجی مداخلت ميں شرکت سے انکار کا خميازہ بھگتتے ہوئے جرمن چانسلر کو بہت سے دوسرے شرکائے کانفرنس کے بعد ہی تقرير کرنے کا موقع ديا گيا۔ چانسلر ميرکل نے فوجی کارروائی پر ليبيا کے باغيوں کی عبوری کونسل، نيٹو اور جنگ ميں حصہ لينے والے بعض عرب ممالک کا بھی شکريہ اد کيا۔
ابھی يہ واضح نہيں ہے کہ ليبيا کی عبوری کونسل، مدد کی يورپی پيشکش کو قبول کرے گی يا نہيں۔ ليبيا ميں اب بھی لڑائی جاری ہے اور نيٹو باغيوں کو اب بھی فوجی مدد دے رہا ہے۔ نکولا سارکوزی نے کہا کہ يہ خاص طور پر يورپ کا فرض ہے: ’’بحيرہء روم يورپ کے پڑوس کا علاقہ ہے اور اس ليے يورپ کو خود بھی اپنے پڑوس ميں امن پر توجہ دينا چاہيے۔‘‘
سارکوزی نے کل کی کانفرنس کے شرکاء کو ’’ليبيا کے دوست‘‘ قرار ديا۔ اُن کی اگلی ملاقات 20 ستمبر کو اقوام متحدہ کے عام اجلاس کے موقع پر ہوگی۔
رپورٹ: ڈانئيلا کالس، پيرس / شہاب احمد صديقی
ادارت: احمد