لٹیروں نے’نمرود‘ کو بھی نہیں چھوڑا
6 جنوری 2017النمرود شہر سے عاشوری آرامک قوم نے تین ہزار برس تک مشرقِ وسطیٰ پر ایک مضبوط حکمرانی قائم کی تھی۔ اس شہر کے کھنڈرات اِس کے ماضی کی شان بیان کیا کرتے تھے پھر ایک دن دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی کالی آندھی نے اس شہر کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ تاریخی مقامات کو خود ساختہ خلافت کے جہادیوں نے بارودی مواد سے اڑا دیا۔
آج ٹوٹ پھوٹ کے شکار اس شہر کا حال خراب سے خراب تر ہو گیا ہے۔ مٹی اور گرد نے بچے کھچے تاریخی محلات اور مندروں پر ایک تہہ جما دی ہے۔ قریبی بستیوں کا گندہ پانی نالیوں کی صورت میں النمرود شہر کے اندر سے بہتا گزرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ قدیمی شہر کی حفاظت کا ضامن سمجھا جانے والا بڑے پروں والے طاقتور بیل کا نقش زمین بُرد ہو چکا ہے۔ شہر کے وسط میں بلند قدیمی حکومتی ایوان زقورہ یا زیگورٹ کا ڈھانچہ اب پوری طرح بارود سے اڑانے کے بعد نابود کیا جا چکا ہے۔ زقورہ یا زیگورٹ مصر کے اہرام جیسا ایک عمارتی ڈھانچہ تھا۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی متفقہ آراء ہے کہ عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے انتہا پسندوں نے ماضی کے ایک انتہائی اہم تاریخی و تمدنی شہر کو اپنی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔اُن کے مطابق یہ تباہی ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
ایک ماہ قبل عراقی فوج کی جانب سے شروع کی جانے والی موصل کی آزادی کی عسکری مہم کے دوران النمرود اور گرد و نواح کے علاقوں سے بھی جہادیوں کو نکال باہر کر دیا گیا۔ فوج کے آگے بڑھنے کے بعد اب اس شہر میں نوادرات کے لٹیروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ہر کونے کھدرے سے کسی قدیمی قیمتی شے یا مورتی کی تلاش میں ہیں تا کہ عراق کے شکست خوردہ تمدنی ماضی سے وہ بھی اپنا حصہ حاصل کر سکیں۔
عراق میں آثارِ قدیمہ کے علم پر دسترس رکھنے والے بڑے چراغ جہادیوں نے گُل کر دیے ہیں۔ ایسے میں لیلیٰ صالح کو ایک غنیمت کہا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے تباہی و بربادی سے دوچار النمرود کا قبضہ چھڑانے کے بعد کئی مرتبہ اس شہر کا دورہ کیا اور تازہ تصاویر بھی بنائی۔ ان کے مطابق النمرود میں اب کچھ بھی اپنی جگہ پر موجود نہیں ہے اور اگر ہے تو قدیمی شہر کے کھنڈرات کا ملبہ ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ بنیادی سطح کو جہادی نابود کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس باعث عالمی برادری کی امداد سے النمرود کی تقریباً ساٹھ فیصد تعمیر ممکن ہے۔