لیبیا: بنی ولید اور سِرت میں قذافی مخالف فورسز کا بھاری جانی نقصان
28 ستمبر 2011سِرت میں ہونے والا جانی نقصان کافی زیادہ تھا۔ منگل کی رات شہر کے مشرقی حصے میں مہاری ہوٹل کے اردگرد گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ عبوری کونسل کی فورسز کے ایک کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دست بدست لڑائی میں ان کے 10 جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ فریقین انتہائی قریبی فاصلے سے ایک دوسرے پر کلاشنکوفوں سے فائرنگ کر تے رہے اور گولے داغتے رہے۔
منگل کی صبح جنگجوؤں نے سِرت کی بندرگاہ پر قبضہ کر کے قذافی مخالف فورسز کے خلاف اہم کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم انہیں اس کمپاؤنڈ پر قبضے کے لیے سخت مزاحمت کی توقع تھی، جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہاں قذافی کے اہل خانہ نے پناہ لے رکھی ہے۔ قومی عبوری کونسل کے ایک جنگجو فتح مارمری نے دعوٰی کیا کہ قذافی کی وفادار فورسز ان کے خلاف بھاری ہتھیار استعمال کر رہی ہیں مگر وہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کے خدشے کے پیش نظر ایسا نہیں کر رہے۔ جنگجو نے کہا، ’اب وہ ہم سے سادہ لباس میں لڑ رہے ہیں اور سِرت میں ہر جگہ افریقہ سے بھرتی کیے گئے کرائے کے فوجیوں کی بھرمار ہے‘۔
قومی عبوری فورسز کے ذرائع کے مطابق بنی ولید میں جاری لڑائی میں بھی ان کے چار جنگجو ہلاک اور 11 زخمی ہو چکے ہیں۔
نیٹو نے بنی ولید اور سِرت دونوں شہروں میں عوامی مشکلات میں اضافے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد کے ایک ترجمان نے کہا کہ قذافی کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے دونوں شہروں میں پینے کے پانی، خوراک، بجلی، ادویات اور ایندھن کی شدید کمی ہو گئی ہے۔
برسلز میں کرنل رولینڈ لاووئی نے کہا، ’ذرائع ابلاغ، عینی شاہدین اور انٹیلیجنس اطلاعات سے دونوں شہروں کی مخدوش صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے‘۔
ادھر معمر قذافی نے اپنے ایک ریڈیو پیغام میں بنی ولید میں ’مزاحمت‘ کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اب بھی لڑ رہے ہیں اور شہید کی موت مرنے کو تیار ہیں۔ قذافی نے کہا، ’ہیرو ہمیشہ مزاحمت کرتے ہیں اور شہید کی حیثیت سے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں اور ہم بھی شہادت کے منتظر ہیں‘۔
قومی عبوری کونسل کی فورسز کا کہنا ہے کہ قذافی کے حامیوں کی سخت مزاحمت کے بعد انہوں نے بنی ولید میں اپنی کارروائی روک دی ہے۔ نئی حکومت کے اعلٰی مذاکرات کار عبداللہ کنشیل نے کہا، ’شدید لڑائی کے بعد قومی عبوری کونسل کی فورسز بنی ولید کے بعض علاقوں سے نکل گئی ہیں‘۔
دریں اثناء، بن غازی میں قومی عبوری کونسل کے رکن مصطفٰی الہونی نے کہا ہے کہ لیبیا کے نئے حکمرانوں نے ملک کے تمام علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لانے تک عبوری حکومت کی تشکیل کا کام ملتوی کر دیا ہے۔ ہفتے کو کونسل کے سربراہ مصطفٰی عبد الجلیل نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ کونسل اور مجلس عاملہ کے اراکین کے درمیان اختلاف رائے کے باعث حکومت کی تشکیل کے کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ