لیبیا: تنازعے کے سفارتی حل کے لیے فرانس کی کوششیں
13 جولائی 2011کئی ماہ سے جاری نیٹو کے جنگی مشن میں خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آنے کے بعد تازہ پیشرفت کو سفارتی ذرائع سے معاملے کے حل کی ایک اہم کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ لیبیا کے رہنما معمر قذافی نیٹو کے فضائی حملوں، اقتصادی پابندیوں اور باغیوں کی مزاحمتی تحریک کے باوجود اقتدر پر براجمان ہیں۔ لیبیا کے وزیر اعظم بغدادی المحمودی نے ایک فرانسیسی اخبار کو دیے گئے انٹریو میں کہا ہے کہ حکومت باغیوں اور فرانسیسی حکومت سے غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے امریکہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کے ’آمر صلاح کار‘ کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
البغدادی کا یہ انٹرویو فرانسیسی اخبار لا فیگارو میں چپھا ہے، جس کے نمائندے نے اُن سے یہ انٹرویو طرابلس میں کیا تھا۔ اگرچہ لیبیا کے وزیر اعظم نے مذاکرات کے آغاز کے لیے کوئی ٹھوس شرط عائد نہیں کی تاہم یہ ضرور کہا کہ لیبیا کے شہروں پر نیٹو کی بمباری رکنی چاہیے۔ دوسری جانب نیٹو کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ اگر قذافی کی فورسز نے کارروائیاں ترک نہیں کیں تو اگست میں ماہ رمضان کے دوران بھی بمباری کا سلسلہ جاری رہے گا۔
فرانسیسی پارلیمان اور سینیٹ نے گزشتہ روز ہی لیبیا مشن میں توسیع کے حق میں رائے دی۔ فرانسیسی وزیر اعظم فرانسواں فیئوں نے پارلیمان کو بتایا کہ لیبیا کے مسئلے کا سیاسی حل پہلے سے زیادہ اہم ہوگیا ہے اور اب ایک شکل میں ڈھلنا شروع ہوگیا ہے۔ دوسری طرف لیبیا میں باغیوں کی نمائندہ تنظیم نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کے ترجمان محمود شمام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ انقلابی محض سنجیدہ اقدامات پر ردعمل ظاہر کریں گے، جو قذافی اور اس کے بیٹوں کے اقتدار سے علیٰحدگی سے متعلق ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ فرانس کا اب سے پہلے تک موقف رہا تھا کہ قذافی کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے فوجی کارروائی چلتی رہے گی۔ اب پیرس حکومت مذاکرات کے لیے تیار نظر آرہی ہے۔ روس اور ترکی بھی لیبیا کے تنازعے کے سفارتی حل کی ضرورت کو اجاگر کر چکے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب دیمتری میدویدیف کو یقین دلایا ہے کہ اگر قذافی اقتدار سے علیٰحدہ ہوجائیں تو واشنگٹن لیبیا کے معاملے کے سفارتی حل کے لیے ماسکو کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق