لیبیا: مظاہروں کے سبب مشرقی علاقے کی حکومت مستعفی
14 ستمبر 2020لیبیا میں بدعنوانی اور ناقص معاشی حالات کے خلاف کئی روز سے احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے جس کے پیش نظر مشرقی لبیا کی عبوری حکومت اتوار 13 ستمبرکومستعفی ہوگئی۔ وزیر اعظم عبداللہ الثانی نے مشرقی لیبیا کے ایوان نمائندگان کے اسپیکر کو اپنا استعفی سونپ دیا ہے۔
سن 2011 میں لیبیا کے حکمراں کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے ملک کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں الگ الگ حکومتیں قائم ہیں جو ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ اس وقت سے ہی ملک میں ایک طرح کی خانہ جنگی جاری ہے اور لیبیا آج تک مستحکم نہیں ہوسکا۔
مشرقی لیبیا کے مرکزی شہر بن غازی اور المعرج میں احتجاجی مظاہرین نے حکومت کے دفاتر میں آگ لگا دی۔ معرج شہر جنگجو سردارخلیفہ حفتر اور ان کی خود ساختہ 'لیبیئین نیشنل آرمی' (ایل این اے) کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ملک کے حنوبی شہر الصباح اور البادیہ میں بھی حکومت مخالف زبردست احتجاجی مظاہروں کی خبریں ہیں۔
انساینت سوز انتشار
کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد کئی برسوں سے لیبیا شدید سیاسی، معاشی اور انسانیت سوز انتشار میں مبتلا ہے۔ ملک میں پھیلی افرا تفری کے خلاف گزشتہ جمعرات کو احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے اور تب سے بار بار بجلی منقطع کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اے ٹی ایم مشینوں میں کرنسی کی شدید قلت ہے، تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور عوام ان تمام مسائل سے بری طرح پریشان ہیں۔
جنگجو سردار خلیفہ حفتر کی ملیشیا، 'ایل این اے' نے مشرقی علاقے کی حکومت کے خلاف گزشتہ تقریباً 14 ماہ سے جنگ چھیڑ رکھی ہے جس سے حکومت کافی کمزور بھی ہوئی ہے۔ خلیفہ حفتر کا مقصد کسی بھی طرح دارالحکومت طرابلس پر قبضہ کرنا ہے۔ عالمی برادری طرابلس میں قائم موجودہ حکومت کی حامی ہے جس کی قیادت فائز السراج کے ہاتھوں میں ہے۔ اقوام متحدہ بھی اسی حکومت کو تسلیم کرتی ہے۔
خام تیل کی دولت سے مالامال شمالی افریقی ملک لیبیا ڈکٹیٹر معمر القذافی کے زوالِ اقتدار کے بعد سے جنگی حالات سے دوچار ہے۔ مسلح قبائلی گروپوں کے درمیان تیل کی دولت کے حصول کے لیے پرتشدد جد و جہد جاری ہے۔ اس وقت لیبیا میں طاقت کے حصول کی کشمکش طرابلس میں قائم اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت اور خلیفہ حفتر کی فوج 'لیبیئن نیشنل آرمی‘ کے درمیان جاری ہے۔
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)