لیبیا میں بنی ولید کے کنٹرول کے لیے مذاکرات ناکام
5 ستمبر 2011خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صحرائی شہر بنی ولید کے باہر قومی عبوری کونسل (این ٹی سی) کے مذاکرات کار عبد اللہ کنشیل نے کہا کہ قبائلی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ختم ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’’اعلیٰ مذاکرات کار کی حیثیت سے، اب میری طرف سے کوئی پیش کش باقی نہیں رہی۔ میری طرف سے مذاکرات کا عمل ختم ہو گیا ہے۔‘‘
بنی ولید سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چیک پوسٹ پر بات کرتے ہوئے عبد اللہ کنشیل نے کہا: ’’آگے کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ ہم نے فیلڈ کمانڈروں اور این ٹی سی پر چھوڑ دیا ہے۔ میں قذافی کے لوگوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ یہ علاقہ چھوڑ دیں۔‘‘
روئٹرز کے مطابق قذافی نواز فورسز کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ بنی ولید لیبیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں ابھی تک قذافی نواز فورسز کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔
کنشیل کا کہنا ہے کہ اتوار کو این ٹی سی کی جانب سے قذافی کے لوگوں کو جتنی بھی تجاویز دی گئیں، انہیں ردّ کر دیا گیا۔ ان کا مزید کہنا ہے: ’’انہوں نے کہا ہے کہ وہ بات کرنا نہیں چاہتے۔ وہاں وہ کسی کو ہلنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ ان کے لوگ بلند عمارتوں پر گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم نے آخری لمحات پر بہت سی باتوں پر سمجھوتہ کر لیا تھا۔‘‘
عبد اللہ کنشیل نے اس یقین کا اظہار کیا کہ معتصم سمیت قذافی کے دو بیٹے اور اس کا ترجمان موسیٰ ابراہیم بنی ولید میں ہی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ بنی ولید کے قبائلی عمائدین اتوار کو مذاکرات کے لیے باہر نکلے تھے۔ روئٹرز کے مطابق این ٹی سی کے حکام کی جانب سے یہ قیاس آرائیاں سامنے آ رہی ہیں کہ قذافی کے خاندان کے افراد اور وہ خود بھی بنی ولید میں ہو سکتے ہیں۔
قبل ازیں اتوار کو این ٹی سی کے ایک اور مذاکرات کار عبدالعزیل نے کہا تھا کہ ان کی فورسز کو نیٹو کی مدد حاصل ہے اور وہ بنی ولید سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی لمحے اس علاقے پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی