لیبیا میں حکومت مخالف مظاہرے، متعدد ہلاک
18 فروری 2011تیونس کے یاسمین اور مصر کے سفید انقلاب سے متاثر ہونے والے لیبیا کے باشندوں نے معمر قذافی کے مستعفی ہونے کے مطالبات شروع کر دیے ہیں۔ جمعرات کو لیبیا کے عوام نے گزشتہ اکتالیس برسوں سے برسر اقتدار معمر قذافی کے خلاف ’یوم الغضب‘ منایا۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس دوران ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے منعقد کیے گئے۔
دارالحکومت طرابلس سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اگرچہ جمعرات کے دن طرابلس میں کوئی بڑا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا اور وہاں روزمرہ کی زندگی معمول پر رہی لیکن ملک کے دیگر کئی شہروں میں مشتعل مظاہرین نے حکومتی املاک کو نقصان پہنچایا۔ مقامی ذارئع ابلاغ کے مطابق کئی شہروں میں مظاہرین پر فائرنگ بھی کی گئی، جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ انسانی حقوق کے نگران اداروں نے کہا ہے کہ البائدہ نامی شہر میں پرامن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں کم ازکم چار افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔
لیبیا کے حکام نے کہہ رکھا ہے کہ ملک میں کسی بھی قسم کا انتشار پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا اور سڑکوں پر مظاہرے کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق جب لیبیا میں مظاہرے شروع ہوئے تھے تو صرف حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تاہم جمعرات کو مظاہرین نے کھلم کھلا ملک کے رہنما معمر قذافی کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
17فروری 2006ء کو بن غازی میں اسلام پسندوں کی ریلی پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں کم ازکم چودہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، گزشتہ روز ’یوم الغضب‘ اسی واقعے کی برسی کے طور پر منایا گیا تھا۔
دوسری طرف مغربی ممالک نے لیبیا کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال نہ کرے۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات میں معمر قذافی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عوام کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی