لیبیا کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اہم اجلاس
26 فروری 2011اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفیر محمد شلغم کا دعویٰ ہے کہ بدامنی کے سبب لاتعداد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ شلغم ان کئی حکومتی عہدیداروں میں شامل ہوگئے ہیں، جنہوں نے صدر قذافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کردی ہے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا، پلیز اقوام متحدہ! لیبیا کی مدد کی جائے۔‘‘
اقوام متحدہ میں لیبیا کے نائب سفیر ابراہیم داباشی نے صدر قذافی کو ذہنی طور پر غیر مستحکم قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل کی جانب سے فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بقول جتنی دیر ہوگی ہلاکتوں کی تعداد، جو ان کے مطابق 1000 سے تجاوز کرچکی ہے، مزید بڑھے گی۔
امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے ایک قرار داد تیار کر رکھی ہے، جس میں عام شہریوں پر تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ بعض ممالک کی جانب سے اس قرارداد کی کچھ شقوں پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔
لیبیا کے صدر معمر قذافی کی جانب سے اپنے سویلین حامیوں کو مسلح کرنے کے اعلان کے بعد دارالحکومت طرابلس میں خوف کی فضاء چھاگئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ملک کے مشرقی حصے سے شروع ہونے والی عوامی مزاحمت دارالحکومت کے مشرقی حصے تک پہنچ گئی ہے۔ اس بڑھتے ہوے عوامی دباؤ کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ روز صدر معمر قذافی نے اعلان کیا کہ وہ اپنے سویلین حامیوں کو حکومتی اسلحہ فراہم کریں گے۔
طرابلس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دارالحکومت میں گزشتہ روز ہی پولیس کی بلا امتیاز فائرنگ سے متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خوفزدہ شہری جان و مال کے تحفظ کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت سرگرم ہوگئے ہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین لیبیا پر پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔ محمد شلغم کے خطاب کے بعد سلامتی کونسل کی جانب سے بھی لیبیا پر پابندیوں کے اطلاق کے لیے غور شروع کردیا گیا ہے۔ طرابلس میں محمد شلغم کے خطاب کو امید کی کرن کے طور پر دیکھا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے طرابلس کے ایک رہائشی کے حوالے سے بتایا کہ محمد شلغم کے خطاب کے فوری بعد بجلی منقطع کردی گئی تھی جو تاحال بحالی نہیں کی گئی۔
بیرونی ممالک کی حکومتیں مسلسل لیبیا سے اپنے شہریوں کے انخلاء کی تگ و دو میں ہیں۔ واضح رہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال اس شمال افریقی ریاست میں ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی برسرروزگار ہیں۔ ان میں سے بعض عینی شاہدین کے مطابق وہاں کی صورتحال انتہائی سنگین ہوتی جارہی ہے۔
یاد رہے کہ تیونس اور مصر کے انقلاب سے متاثر ہوکر لیبیا میں 15 فروری کو بندرگاہی شہر بن غازی سے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : امتیاز احمد