لیزر ٹیکنالوجی کے پچاس کامیاب سال
31 مئی 2010لیزر ٹیکنالوجی کے بغیر ہم آج کے جدید طرزِ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیزر وہ روشنی ہے، جو قدرتی طور پر ہماری کائنات میں وجود نہیں رکھتی۔ یکساں رفتار کے ساتھ حرکت کرنے والی اور یوں ایک دوسرے کو اور زیادہ طاقتور بنانے والی اِن لہروں کے بارے میں پیشین گوئی تو آئن شٹائن نے بھی کی تھی لیکن ان کی باقاعدہ دریافت نصف صدی پہلے ہوئی۔
پچاس سال پہلے جب اِس ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا تو بہت سے لوگوں نے اِسے کسی مسئلے کے حل کی بجائے الٹا اِسے ایک مسئلہ قرار دیا تھا۔ لیزر شعاعیں دھات کی موٹی تہوں کو کاٹنے اور کسی خلیے کے اندر تک جھانک کر ساری تفصیلات دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اِنہیں کاروں کے مختلف حصوں کو ویلڈنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ملانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فائبر گلاس کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک ڈیٹا پہنچا سکتی ہیں۔
اِن شعاؤں کے بغیر نہ تو موبائیل فونز کی بیٹریاں تیار کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کے لئے ہارٹ پیس میکر بنایا جا سکتا ہے۔ اور تو اور، لیزر شعاعوں کے بغیر نہ تو سی ڈی کا وجود ہوتا اور نہ ہی ڈی وی ڈی کا۔ اِس قدر کامیابیوں کے باوجود انسان ابھی لیزر کے تمام تر امکانات سے واقف نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ا ِن شعاعوں پر تحقیق کا سلسلہ پوری دُنیا میں جاری ہے۔
جرمن شہر میونخ کے قریب گارشِنگ کے مقام پر کوآنٹن آپٹیک کے ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں بھی اِنہی شعاعوں پر تحقیق ہو رہی ہے۔ وہاں موجود پروفیسر فیرَینس کراؤش نے بتایا:’’اِس عمارت میں ہماری لیباریٹری کے دو حصے ہیں۔ پہلی منزل میں ہم اپنی لیزر شعاعیں تیار کرتے ہیں۔ پھر یہ شعاعیں ا یک پائپ کے ذریعے نیچے والی منزل تک پہنچائی جاتی ہیں۔ وہیں پھر ہم اِن کے ساتھ تجربات کرتے ہیں۔‘‘
ان تجربات کا مقصد زیادہ سے زیادہ تیز رفتار وقفوں سے وجود میں آنے والی شعاعیں تیار کرنا ہے۔ اِس انسٹی ٹیوٹ میں اَسی اَیٹو سیکنڈز دورانیے والی لیزر شعاعوں کے ساتھ تجربات کئے جا رہے ہیں۔ اَسی اَیٹو سیکنڈز کا مطلب ہے، ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے کا اَسی ارب واں حصہ ۔ محض اِس رفتار والی شعاعوں کی مدد سے ایٹموں اور مالیکیولز میں الیکٹرانز کی حرکت کی حقیقی رفتار کی تصویر اُتاری جا سکتی ہے۔ اِس کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر کراؤش کہتے ہیں:’’ایٹموں کو حرکت دیتے ہوئے ہم لیزر شعاعوں کی مدد سے کسی بھی لمحے کی تصاویر اُتار سکتے ہیں۔ اِن تصاویر کے ذریعے ہم بعد میں سلو موشن میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایٹموں میں الیکٹرانز کیسے حرکت کرتے ہیں۔ یہی ہمارے منصوبے کا بنیادی خیال ہے۔‘‘
اِسی طریقے کی مدد سے گارشِنگ کےاِس انسٹی ٹیوٹ کے محققین نے سن 2002ء میں لائیو یعنی براہِ راست یہ مشاہدہ کیا تھا کہ کیسے کرپٹان گیس کے الیکٹرانز ایٹم کے مرکزے میں اپنا مدار تبدیل کر لیتے ہیں۔ سائنس کی دُنیا میں یہ ایک بڑا انقلاب تھا۔ تب سے لے کر اب تک لیز شعاعوں کی مدد سے سائنس دانوں نے اور بھی زبردست مشاہدے کئے ہیں۔
وہ ایسے الیکٹرانز کو فلمانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جنہیں زبردستی ایٹموں سے الگ کیا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے الیکٹرانز کو توانائی کی ایسی رکاوٹیں عبور کرتے دیکھا ہے، جو روایتی طبیعیاتی اصولوں کے مطابق ناقابلِ عبور ہیں۔ تاہم سائنسدان محض مشاہدے تک محدود نہیں رہنا چاہتے بلکہ اِس سے کہیں آگے جا کر الیکٹرانز پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ لیزر شعاعوں کو مستقبل میں طبی مقاصد مثلاً ابتدائی مرحلے ہی میں کینسر کا سراغ لگانے کے لئے بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ