لیفٹننٹ جنرل منوج پانڈے بھارتی فوج کے نئے سربراہ مقرر
20 اپریل 2022لیفٹننٹ جنرل منوج پانڈے کو بھارتی فوج کی سربراہی ایسے وقت سونپی جارہی ہے جب چین کے ساتھ سرحد پر جاری فوجی تعطل تقریباً دو برس ہونے کے باوجود اب تک ختم نہیں ہوسکا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب فوج کی معاون ونگ کور آف انجینئرز کا ایک افسر بھارتی فوج کے اعلی ترین عہدے پر پہنچا ہے۔ اب تک آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہونے والے افسران کا تعلق انفنٹری، آرمرڈ کور یا آرٹیلری سے رہا ہے۔
لیفٹننٹ جنرل منوج پانڈے 13لاکھ نفری پر مشتمل بھارتی فوج کے 29ویں سربراہ ہوں گے اور موجودہ سربراہ جنرل ایم ایم نروانے کی 30اپریل کوسبکدوشی کے بعد یکم مئی سے اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔
کون ہیں لیفٹننٹ جنرل منوج پانڈے؟
لیفٹننٹ جنرل منوج پانڈے اس سے پہلے مشرقی کمان کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے یکم فروری کو فوج کے نائب سربراہ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ مشرقی کمان نے ہی سن 1971میں پاکستان کے خلاف جنگ میں بھارتی فوج نے رہنما کردار ادا کیا تھا۔
منوج پانڈے دسمبر 1982میں بھارتی فوج میں شامل ہوئے۔ اپنے 39سالہ فوجی کیریئر میں انہوں نے تمام قسم کے علاقوں میں روایتی اور عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کی کمان کی۔
بھارتی فوج کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق وہ آپریشن پراکرم کا بھی حصہ رہے۔ جو بھارتی پارلیمان پر حملے کے تناظر میں بھارت اور پاکستان کے مابین تعطل کی وجہ سے ہوا۔ اس فوجی تعطل کے دوران جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں نے اپنی ہزاروں فوج تعینات کردی تھیں۔
لیفٹننٹ جنرل منوج پانڈے نے ایتھوپیا اور اریٹریا میں اقو ام متحدہ مشن کے چیف انجینئر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے سابق مستقل نمائندے سید اکبر الدین نے لیفٹننٹ جنرل منوج پانڈے کی تقرری پر ایک ٹوئٹ میں کہا،"عالمی امن کا ایک اور محافظ بھارتی فوج کا سربراہ بنا۔"
نئے بھارتی فوجی سربراہ کو درپیش چیلنجز
نئے آرمی چیف کے طورپر جنرل منوج پانڈے کے سامنے لداخ سیکٹر میں بھارت او رچین کے درمیان تقریباً دو سال سے جاری فوجی تعطل ایک اہم مسئلہ ہوگا۔ دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان پندرہ دور کی مذاکرات کے باوجود اب تک یہ تعطل ختم نہیں ہوسکا ہے۔
جنرل پانڈے ایسے وقت میں بھارتی فوج کا عہدہ سنبھال رہے ہیں جب بھارت مستقبل کی جنگوں اور کارروائیوں کے لیے تینو ں مسلح افواج کے وسائل بہترین طریقے پر استعمال کرنے کے لیے ایک کمان کے نئے منصوبے پر کام کررہا ہے۔
بھارتی فوج اپنے زیر استعمال ہتھیاروں کا بھی جائزہ لے رہی ہے کیونکہ فوج کے زیر استعمال فوجی ساز و سامان کا دو تہائی حصہ سابق سوویت یونین اور روس کا ہے اور یوکرین کے خلاف روسی فوجی کارروائی کے مدنظر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ماسکو پر عائد پابندیوں نے بھارت اور روس کے دفاعی تعلقات میں نئے مسائل پیدا کردیے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی عالمی صورت حال نے بھارت کی فوجی تیاریوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔