ماحول کے بچاؤ کی کوششیں اور توقعات
29 نومبر 2009کوپن ہيگن ميں آب و ہوا کے مسئلے پر ہونے والی عالمی سربراہ کانفرنس کو پوری دنيا کے مستقبل کے لئے فيصلہ کن سمجھا جاتا ہے۔ ليکن اس کانفرنس سے کيا توقعات رکھی جاسکتی ہيں اور اس ميں ماحولياتی تباہی کو روکنے کے لئے کتنے مؤثر فيصلوں کا امکان ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
مشہور کمپنی ڈی۔ ايچ ۔ ايل کے سياست اور پائيدار ترقی کے شعبے کے سربراہ رائنر وينڈ کے مطابق ان کی کمپنی نے س 2020 تک اپنے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج ميں تيس فيصد کمی کا فيصلہ کيا ہے۔ اس طرح اس کا ہدف يورپی يونين کے ہدف کے مساوی ہے جس نے اپنے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو بھی سن 2020ء تک تيس فيصد کم کردينے کا فيصلہ کيا ہے،بشرطيکہ دوسرے ممالک بھی اتنی ہی کمی کرديں۔ اگر دوسرے ممالک اس پر راضی نہيں ہوتے تو يورپی يونين صرف بيس فيصد کمی کے فيصلے پر قائم رہے گی۔
تاہم DHL جيسی دنيا کی ايک اتنی بڑی کمپنی کا يہ رضاکارانہ فيصلہ،جس کے 220 ملکوں ميں پانچ لاکھ ملازميں ہيں، صرف اقتصادی پہلوہی نہيں رکھتا۔ رائنر وينڈ نے کہا کہ گاہکوں اور سرمائے کی منڈی کی طرف سے بھی مسلسل زيادہ مطالبہ کيا جارہا ہے کہ کاروباری تجارتی ادارے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو کم کرنے پر توجہ ديں۔
توانائی کا باکفايت اور مؤثر استعمال ،لمبی مدت کی بنياد پر نفع بخش ہے اور توانائی جس قدر زيادہ مہنگی ہوتی جائے گی،اس کے باکفايت استعمال اور اس کے متبادل ذرائع کی تلاش کی اہميت اتنی ہی زيادہ بڑھتی جائے گی۔ ان شعبوں منں سرمايہ لگانے کی ضرورت اور اہميت ميں بھی اضافہ ہوگا۔
اس لئے بھی،اقتصادی شعبہ بھی کوپن ہيگن کی بات چيت کو بہت اہميت دے رہا ہے۔پيٹر ٹمے، جرمنی کے شہر کولون ميںسرمايہ کاری اور ترقی کی جرمن سوسائٹی کے پائيدار ترقی اور ماحوليات کے شعبے کے سربراہ ہيں۔ ان کو کوپن ہيگن کی کانفرنس سے يہ توقع ہے کہ اس ميں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو کم کرنے کے لئے صنعتی تجارتی اداروں سے اس کے اخراج کی مقدار کے اعتبار سے معاوضہ لينے کے سلسلے ميں ضوابط طے کئے جائيں گے۔
نجی سرمايہ کار ابھی سے اس پہلو کو اہميت دے رہے ہيں۔ اس لئے سرکاری اور نجی سرمايہ کاروں کو دنيابھر ميں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کے سلسلے ميں ايسےتجارتی قواعد کی توقع ہے جن کی پابندی سب کے لئے لازمی ہو۔
کيا کوپن ہيگن ميں واقعی اس طرح کے ،سب پر لاگو ہونے والےضوابط تيار کر لئے جائيں گے؟ اس کا انحصار سياستدانوں پر ہے۔ اقوام متحدہ کے تحفظ ماحول کے پروگرام UNEP کے سربراہ آخم اشٹائنر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس کے لئے سائنسی علم ہے،ٹيکنا لوجی اور اقتصادی وسائل بھی ہيں۔ جس بات کی اس وقت کمی ہے وہ سياسی آمادگی اور اتفاق رائےہے کہ ہم عالمی سطح پر مل جل کر آب و ہوا ميں تبديلی اور ماحولياتی تباہی سے بچنے کے لئے کس طرح سے اقدامات کرسکتے ہيں۔
ہم اس سلسلے ميں سياستدانوں کی ناکامی يا نا اہلی کے نتائج برداشت کرنے کے متحمل نہيں ہوسکتے۔ ماحول اور آب و ہوا کی تباہی کو روکنے پر صرف کيا جانے والا پيسہ، کچھ نہ کرنے کے مالی اور دوسرے بھيانک نتائج کے مقابلے ميں کئی گنا کم ہو گا۔
رپورٹ : ییپرسن ہیلے
ترجمہ : شہاب صدیقی