1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجنوبی کوریا

ماحولیات سے جنگ تک، دنیا ایک نازک دور میں داخل: سپری

23 مئی 2022

بین الاقوامی تھنک ٹینک سپری کا کہنا ہے کہ دنیا ایک ایسے دورکی متحمل نہیں ہو سکتی جس میں مسلح تصادم کیساتھ ساتھ ماحولیاتی تباہی سے بھی نمٹا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/4BiTF
Symbolbild Rüstungsexporte aus Deutschland
تصویر: Philipp Schulze/dpa/picture alliance

دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خریدوفروخت پر نگاہ رکھنے والے معروف ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(سپری) نے ''امن کا ماحول: خطرات کے نئے دور میں سکیورٹی‘‘ کے عنوان سے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں دنیا کی ایک تشویش ناک تصویر پیش کی ہے اور اسے بین الاقوامی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق،''ایک پیچیدہ ماحولیاتی بحران اور ابتر سکیورٹی صورتحال ایک دوسرے کو خطرناک طریقے سے تقویت پہنچارہے ہیں۔‘‘ تباہ ہوتے جنگلات، پگھلتے گلیشیئرز اورسمندروں کی آلودگی میں جہاں مسلسل اضافہ ہورہا ہے وہاں مسلح تصادم سے ہونے والی اموات کی تعداد، ہتھیاروں کی خریداری پر ہونے والے اخراجات بھی بڑھتے جارہے ہیں جبکہ بھوک سے ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وباؤں نے ان خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ایک بین الاقوامی ایمرجنسی کی صورت حال پیدا ہوچُکی ہے۔ صومالیہ اس ایمرجنسی کی ایک واضح مثال ہے۔ مشرقی افریقہ کا یہ ملک گزشتہ دو برس سے خشک سالی اور غربت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروپ الشباب کے حملوں کا بھی شکار ہے۔

وسطی امریکہ میں بھی اسی طرح کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلیں خراب ہورہی ہیں تود وسری طرف تصادم اور بدعنوانی کے نتیجے میں امریکہ کی جانب بڑی تعداد میں نقل مکانی شروع ہوگئی ہے۔

BdTD Schmelzender Gletscher Grönland
تصویر: HANNIBAL HANSCHKE/REUTERS

فوری اقدامات کی ضرورت

سپری کے مطابق کوئی عالمی منصوبہ بندی نہیں ہونے کی وجہ سے دنیا اس دوہرے خطرے سے دوچار ہوگئی ہے۔

سپری کے ڈائریکٹر ڈین اسمتھ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''فطرت اور امن ایک دوسرے سے اتنے مربوط ہیں کہ ایک کے نقصان سے دوسرے کا نقصان ہونا لازمی ہے اور اسی طرح ایک کی بہتری سے دوسرے کی بہتری ہوگی۔‘‘  انہوں نے کہا، ''اس حوالے سے اقدامات کرنا ممکن ہیں لیکن اسے فورا ً سے پیشتر شروع کیا جانا چاہیے۔‘‘

سپری کا کہنا ہے کہ بیشتر حکومتیں اس بحران کی شدت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی ہیں یا انہوں نے جان بوجھ کر ان مسائل کو نظر انداز کردیا  جس نے حالات کو مزید ابتر بنادیا۔

اسمتھ کا کہنا تھا،''بعض حکومتیں اقدامات کرنا تو چاہتی ہیں لیکن ان کی دیگر ترجیحات ہیں جو زیادہ توجہ کی متقاضی ہیں۔ مثلاً گزشہ دو برس کے دوران کورونا وائرس کی وبا اور اب یوکرین کی جنگ۔‘‘

اس رپورٹ کو سپری اور دیگر ادارو ں کے 30 ماہرین نے مل کر تیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور آج لوگ پہلے کے مقابلے مالی لحاظ سے کہیں زیادہ بہتر حالت میں ہیں لیکن وہ کئی دیگر اسباب کی بنا پر عدم تحفظ کا شکار بھی پہلے سے زیادہ ہیں۔ ماہرین نے علاقائی آفات اور تصادم کے بین الاقوامی مضمرات کا بھی جائزہ لیا ہے۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی حالات اور کورونا وائرس کی وبا نے عالمی سپلائی چین کے لیے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ تصادم اور فصلوں کی تباہی نے زراعت کو غیر معتبر کردیا ہے جس کی وجہ سے کسان نقل مکانی کررہے ہیں۔ جن ملکوں سے کسان نقل مکانی کررہے ہیں ان میں سے بیشتر میں کافی غربت ہے اور وہاں نظم و نسق کی حالت بھی خراب ہے۔

ایک دہائی میں تصاد م کی تعداد دو گنا

سپری کا کہنا ہے کہ سن 2010 اور سن 2020 کے درمیان مختلف ملکوں کے درمیان ہونے والے مسلح تصادم کی تعداد دو گنا ہوگئی ہے۔ جب کہ ان تصادم کی وجہ سے دنیا بھر میں مہاجرین اور بے گھر ہوجانے والے افراد کی تعداد بھی دو گنا ہوکر 82.4 ملین ہوچکی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2020 میں دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سن 2021 میں فوج پر ہونے والے اخراجات پہلی مرتبہ 2 کھرب ڈالر سے تجاوز کرگئے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ لوگ آخر کریں کیا؟

حالات پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

سپری کی اس رپورٹ کی تیاری میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے اس حقیقت کو اجاگر کردیا ہے کہ اگر ہم پہلے سے تیار نہ ہوں تو ہمیں کن خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

رپورٹ تیار کر نے والی ٹیم کے سربراہ ماحولیات کے سابق یورپی کمشنر اور سویڈن کے سابق وزیر خارجہ مارگوٹ وال اسٹرام کا کہنا تھا، ''ماحولیاتی اور سکیورٹی بحران چونکہ بدتر ہوتے جارہے ہیں اس لیے  حکومتوں کو ان کے حوالے سے خطرات کا اندازہ لگانے کی ضرورت ہے  تاکہ وہ ان سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرسکیں اور سماج کو مزید لچک دار بناسکیں۔‘‘

محققین کے مطابق جنوبی کوریا نے ایک اچھی مثال پیش کی ہے۔ اس نے سن 2002 کے دوران سارس وبا سے جو سیکھا تھا اس کی بنیاد پر کووڈ انیس کی وبا شرو ع ہونے سے قبل ہی اس سے نمٹنے کی تیاری شروع کردی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قومی شرح اموات کو محدود رکھنے میں کامیاب رہا۔ وہ ایسے بہت سارے اقتصادی اور سماجی مسائل سے بھی محفوظ رہا جس کا دیگر ملکوں کو سامنا کرنا پڑا۔

سپری نے اس عالمی بحران سے نمٹنے کے ممکنہ طریقہ کار نیز مختصر مدتی اقدامات کے حوالے سے مشورے بھی دیے ہیں۔ سپری کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں اقوام متحدہ سے لے کر میونسپل سطح تک کے پروجیکٹس میں ان لوگوں کو ضرور شامل کیا جانا چاہیے جو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔

 سپری کے ڈائریکٹر اسمتھ کا کہنا تھا،''حکام کو معلوم ہے کہ ماحولیاتی تباہی ہورہی ہے اور اس سے عدم تحفظ پیدا ہوگا۔ لیکن صرف باہمی تعاون سے ہی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘‘

ج ا/ ک م  (رالف بوزین)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید