ماحولیاتی تباہی ایک مشترکہ مسئلہ ہے: بان کی مون
5 فروری 2009ان کا کہنا تھاکہ اس الزام اورجوابی الزام کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے کہ گلوبل وارمنگ کے لئے کون ذیادہ ذمہ دار ہے اور کون کم اور کسے اس ذمہ داری سے نمٹنے کے لئے زیادہ بوجھ برداشت کرنا چاہئے اور کسے کم۔
انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے دنیا بھر کے قائدین کو پورے عزم اور خلوص کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔وہ نئی دہلی میں sustainable develpment summit سے خطاب کررہے تھے۔ انہو ں نے کہا کہ کلائمٹ چینج سے نمٹنے میں ناکامی سے غربت اور دیگر مصائب میں مزید اضافہ ہوگا، معیشت عدم استحکام کا شکار ہوگی اور بہت سے ملکوں اور ذہنوں میں عدم سلامتی کا احساس پید اہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایک چیلنج سمجھ کر اس بحران کا سامنا کرنا چاہئے اور اسے ایک بہتر اور پائیدار ترقی کے موقع کے طور پر لینا چاہئے۔
بان کی مون نے ترقی پزیر ملکوں سے کلائمٹ چینچ کے خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کرنے اور صنعتی ملکوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کرنے کی نصیحت کی۔ انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھارت، چین، برازیل، شمالی امریکہ اور افریقی ملکوں نے اہم اقدامات کئے ہیں لیکن انہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔
دوسری طرف بھارت نے کلائمٹ چینج کے بحران کے لئے صنعتی ملکوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر کوشش کرنے کی اپیل کی۔ بھارتی وزیر خارجہ پرنب مکھرجی نے ماحولیاتی تبدیلی کے مضمرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا سب سے زیادہ خمیازہ ترقی پزیر ملکوں کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ کلائمٹ چینج کے بعض انتہائی سنگین نقصانات کا شکار ترقی پزیر ملکوں کو ہی ہونا پڑ رہا ہے حالانکہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تمام اشارے اس حقیقت کی جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ ترقی پزیر ملکوں کو ہی اس بحران کے مضمرات کا شکار ہونا پڑے گا اور اس کی ذمہ داری ان ملکوں پر عائد ہوتی ہے جو صنعتی ترقی کے آغاز سے ہی ماحول کو آلودہ کررہے ہیں۔
پرنب مکھرجی نے کہا کہ بھارت پائیدار ترقی کو ایک جامع نظریہ کے طور پر دیکھتا ہے’’ ہمارے لئے پائیدار ترقی کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی صحت، تعلیم، غذا اور رہائش جیسی ضرورتیں پوری ہوسکیں اور غربت کا خاتمہ ہوسکے تاکہ ہر شخص ایک محفوظ، صاف اور صحت مند ماحول میں وقار کے ساتھ زندگی گذار سکے۔‘‘
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ وہ ماحولیاتی توازن کے حوالے سے امریکہ کی نئی انتظامیہ کے اقدامات سے خوش ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ صدر باراک اوباما نے اس سلسلے میں کئی داخلی اقدامات کئے ہیں اور توقع ہے کہ کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس میں ہم کسی لائحہ عمل پر پہنچ جائیں گے۔‘‘
اس کانفرنس میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری ویڈیو کانفرنسگ کے ذریعے شرکاء سے خطاب کرنے والے تھی لیکن منتظمین کا کہنا ہے کہ بروقت حکومتی تعاون اور اپ لنکنگ کی سہولیات نہیں ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے وزیر ماحولیات بھی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوسکے۔ تاہم بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے اس کانفرنس میں آصف علی زرداری کی تقریر پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔
جرمنی کے وفاقی وزیر برائے تعمیرات، شہری امور اور ٹرانسپورٹ وولف گینگ ٹیفینسی بھی اس تین روزہ کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔
اسی دوران بان کی مون نے بھارت کے قائم مقام وزیر اعظم اور وزیر خارجہ پرنب مکھرجی، حکمراں متحدہ ترقی پسند اتحاد کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن سے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق بھارت نے انہیں ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے میں تفصیلات اور اس کے بعد پاکستان کے رویے سے آگاہ کیا اورکہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ اسلام آباد بھارت کی تشویش کو کس حد تک دور کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو مزید بتایا کہ کشمیر اور دیگر مسائل کے حل کے سلسلے میں دونوں ملکوں نے خاصی پیش رفت کی تھی لیکن ممبئی حملوں نے اسے بہت پیچھے دھکیل دیا اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے خطاکاروں کے خلاف کارروائی کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھارتی رہنماوں کے ساتھ افغانستان کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔