ماحولیاتی تبدیلی: کوہ ہمالیہ میں پگھلتے برف کے تودے
26 نومبر 2009کوہ ہمالیہ میں موجود گلیشئیرز یعنی برف کے تودے جنوبی ایشیا اور چین میں پانی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ انہی پہاڑوں سے آنے والے پانی سے، ان علاقوں کے باسی نہ صرف پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں بلکہ یہی پانی آبپاشی اور توانائی کے حصول کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم عالمی درجہء حرارت میں روز بروز اضافے کے نتیجے میں اب برف کے یہ تودے غیر معمولی رفتار سے پگھل رپے ہیں۔
کوہ ہمالیہ میں پوشیدہ برف کے تودے،دنیا بھر میں گلیشئیرز کے چند بڑے ذخائر میں شمار کئے جاتے ہیں۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کوہ ہمالیہ میں کئی گلیشئیرز، مستقبل قریب میں پگھل جائیں گے۔ اس سے نہ صرف پانی کی قلت پیدا ہو گی بلکہ سیلاب کا بھی شدید خطرہ لاحق ہو گا۔ تاہم ان تمام باتوں کے باوجود اس خطے میں اس حوالے سے خبردار نہیں کیا گیا ہے۔
محققین اور سائنس دانوں کےمطابق بیس تا تیس سال بعد کوہ ہمالیہ میں موجود برف کے ذخائر میں سے ایک بڑی مقدار پگھل چکی ہو گی۔ جنوبی ایشیا اور چین کا ایک بڑا حصہ خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں متاثرہ خطے کے تقریباً ایک بلین نفوس کو طویل المدتی بنیادوں پر پانی کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے اورلاکھوں افراد اپنا ذریعہ معاش کھو سکتے ہیں۔
جرمن امدادی ادارے Diakonie Katastrophenhilfe سے منسلک موسمیاتی ماہر Peter Rottach کہتے ہیں: ’’اگر وہاں مزید برف کے تودے نہیں ہوں گے تو موسم گرما میں قدرتی عمل سے پگھلنے والا پانی بھی دستیاب نہیں ہوگا، جو کہ آبپاشی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خطے میں بسنے والوں کے لئے خوارک کی کمی بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
پیٹر روٹاخ مغربی ہمالیہ میں لداخ کے پہاڑوں میں پگھلنے والے برف کے تودوں کا مطالعہ کر چکے ہیں۔ اپنے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے بالخصوص اچانک آنے والے سیلاب کا تذکرہ کیا،جس کی ایک بڑی وجہ گلیشیئرز کا غیر معمولی رفتار سے پگھلنا بتایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک کوہ ہمالیہ میں تودوں کے پگھلنے سے متوقع آفات کے بارے میں کوئی بھی وارننگ نہیں دی گئی ہے: ’’میں نے ابھی حال ہی میں ایک گاؤں کا دورہ کیا، جہاں اچانک ہی سیلاب آیا تھا۔ اس سیلاب کے نتیجے میں تقریباً پورے کا پورا گاؤں ہی بہہ گیاتھا اور لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ اسی طرح کے کئی اور مثالیں بھی ہیں۔‘‘
سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ گلیشیئرز کے پگھلنے کا ذمہ دار انسان خود ہی ہے۔ صنعتی ترقی کے نتیجے میں CO2 گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج ہی عالمی درجہء حرارت میں اضافے کا باعث ہے، جس نے تمام کرہء ارض کے ماحول کو بدل دیا ہے اور اس میں ایک خطرناک تبدیلی آگئی ہے۔
گلیشیئرز سے متعلق امور کے ماہر سید حسین کہتے ہیں کہ اس صورتحال سے نمٹنے اور کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنے کے لئے ایک نظام کا ہونا ضروری ہے۔ اور اس کے لئے علاقائی تعاون بھی ناگزیر ہے۔ بھارت کےسرکاری انسٹی ٹیوٹ برائے توانائی اور وسائل TERI سے منسلک سید حسین کہتے ہیں:’’مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اس بارے میں علاقائی سطح پرکوئی تعاون نہیں پایا جاتا۔ جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان، نیپال، بھوٹان اور بھارت، ان تمام ہی ممالک کے اپنے اپنے سیاسی نظریات ہیں اور اس خطے میں تنازعات بھی پائے جاتے ہیں،جن کے باعث کوئی تعاون نہیں ہے لیکن اس مخصوص حوالے سے تعاون لازمی ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان علاقوں میں آبپاشی،صنعت اور توانائی کے ذرائع کو محفوظ بنانے کے لئے برف کے تودوں کو پگھلنے سے روکنے کے لئے فوری طور پر کوئی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: گوہر گیلانی