ماریہ صداقت کو جلایا نہیں گیا،اُس نے خود کُشی کی:پولیس
1 جولائی 2016یکم جون کو پولیس اور مقتولہ کے رشے داروں نے بتایا کہ ایک پرائیوٹ اسکول میں زیر تعلیم 19 سالہ ماریہ صداقت نے اپنے اسکول کے پرنسپل کے بیٹے سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر اسلام آباد سے نزدیک پاکستان کے ایک نہایت پُر فضا مقام مری کے نواح میں اپر دیوال نامی گاؤں میں کئی افراد کے ایک گروہ نے تیس مئی کو حملہ کر کے ماریہ کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
بعد ازاں اُس کی زخموں سے چور لاش کو آگ لگا دی گئی تھی۔ ماریہ نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں یکم جون کو دم توڑ دیا تھا۔
جمعہ یکم جولائی کو ماریہ کے مقدمے کی تفتیشی ٹیم نے اس واردات کو خود سوزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خود کُشی تھی۔ ساتھ ہی ماریہ کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے چار میں سے تین ملزمان کو بے گناہ بھی قرار دے دیا گیا ہے۔
پولیس کی طرف سے ماریہ کی موت کو خود کُشی قرار دینے کے عمل کی ماریہ کے والد اور انسانی حقوق کے سرگرم عناصر نے شدید تنقید کی ہے۔
ماریہ کے انتقال کے وقت پولیس نے کہا تھا کہ مرنے سے پہلے ماریہ نے ایک بیان دیا تھا جس میں اُس نے خود پر حملہ کرنے والوں کے نام لیے تھے۔ ان ناموں میں اُس شخص کا نام جس نے اُسے مبینہ طور پر شادی کی پیشکش کی تھی، اُس کے والد اور دیگر حملہ آوروں کے نام شامل تھے۔
تاہم جمعہ یکم جولائی کو پولیس نے اپنے بیان میں ماریہ کے آخری الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ماریہ کی اُس شخص کے ساتھ کئی سالوں سے دوستی تھی اور دونوں کے مابین ہزاروں ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا اور ماریہ نے اُس شخص سے شادی کی اتجا کی تھی۔
پولیس اہلکاروں نے مزید کہا ہے کہ ماریہ نے ایک ٹیکسٹ پیغام میں اُس مرد کو یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ اُس کی خود کُشی کا ذمہ دار ہوگا۔ پولیس نے یہ بھی کہا ہے کہ ماریہ صداقت کو جلانے کے لیے جو پٹرول استعمال کیا گیا وہ اُس کے والد کے ورکشاپ سے آیا تھا۔
پولیس نے مزید کہا ہے کہ فورینزک شواہد سے کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ اُس پر حملہ کیا گیا تھا۔ تفتیشی کمیٹی کے سربراہ ابوبکر خُدا بخش نے اس رپورٹ کی تصدیق کر دی ہے۔
ماریہ کے والد نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ اُن کی بیٹی کے قتل کی تفتیشی کارروائی میں پولیس نے ساز باز اور گڑ بڑ کی ہے۔
ماریہ کے والد صداقت حسین نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا، ’’یہ نہایت دُکھ اور صدمے کی بات ہے کہ پولیس نے تفتیشی کارروائی میں حقائق کو کس طرح بدل دیا ہے اور غلط بیانی اور توڑ جوڑ کر کے مبینہ ملزمان کو تحفظ فراہم کیا ہے۔‘‘
دریں اثناء پاکستان کی انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن عاصمہ جہانگیر، جنہوں نے اپنے طور پر بھی ایک کمیٹی ماریہ کیس کی چھان بین کے لیے قائم کی ہے، نے پولیس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ’’یہ کہیں سے خود کُشی کا کیس نہیں لگتا، ماریہ کے ہاتھ جلے ہوئے نہیں تھے اگر اُسے خود کُشی ہی کرنا ہوتی تو خود کو اتنی تکلیف میں ڈالنے کے بجائے وہ زہر کھا سکتی تھی یا خود کو گولی مار لیتی۔‘‘
عاصمہ جہانگیر کے بقول ماریہ کی موت کا اعلامیہ موجود ہے۔ انہوں نے اس امر کی طرف نشاندہی بھی کی کہ چند مبینہ ملزم صداقت کے بیان کو فسق قرار دینے کے لیے سامنے آنے کی ہمت کرنے کے بجائے اس واقعے کے بعد سین سے غائب ہو گئے۔ عاصمہ جہانگیر نے حکومت پاکستان سے ماریہ کے قتل کے کیس کی نئے سرے سے تفتفشی کارروائی کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔