مالی بحران کے شکار بلوچستان میں سرکاری اساتذہ کی خیراتی مہم
10 اپریل 2023پاکستان کے صوبے بلوچستان میں مالی بحران سے نظام تعلیم درہم برہم ہو جانےکے باعث ہزاروں طلباء وطالبات کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔ صوبے کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی جامعہ بلوچستان کے اساتذہ اور دیگر عملے نے مالی بحران سے نمٹنے کے لیے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں خیراتی مہم شروع کردی۔
شدید مالی بحران کے باعث سو ل سیکرٹریٹ اور صوبے کے دیگر سرکاری محکموں کے ملازمین بھی گزشتہ ایک ماہ سےسراپا احتجاج ہیں۔ اس بحرانی صورتحال کی وجہ سے صوبائی حکومت نے انتظامی امور چلانے کے لیے مرکزی حکومت سے خصوصی مالی معاونت طلب کر لی۔
تنخواہ نہیں بچتی: پاکستان میں پروفیشنلز معاشی تنگی کا شکار
احتجاج پر مجبور
بلوچستان یونیورسٹی میں تعینات اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے رہنماء پروفیسر کلیم اللہ بڑیچ کہتے ہیں انتہائی مخدوش صورتحال کی وجہ سے ملازمین سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''جامعہ بلوچستان کےاساتذہ سمیت تمام عملے کے ارکان گزشتہ تین ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ مالی بحران کی وجہ سے صوبے کی واحد بڑی درسگاہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے اساتذہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن بھی بند کردی گئی ہے۔ حکومت اپنے اخراجات میں کمی لانے کے بجائےتعلیمی اداروں کو تباہ کر رہی ہے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم کی متحدہ عرب امارات سے مالی امداد کی درخواست
کلیم اللہ بڑیچ کا کہنا تھا کہ مالی مسائل کی وجہ سے یونیورسٹی کے مرکزی اور تمام زیلی کیمپسزکے زیر انتظام امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔ ان کے بقول، ''بلوچستان کی تمام جامعات مالی بحران کا شکار ہیں۔ جامعہ بلوچستان میں ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن بھی کو ئی کردار ادا نہیں کررہا ہے۔ حکومتی نااہلی کی وجہ سے بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہماری یونیورسٹی کے کئی سینئیراساتذہ صوبے سے بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں بہتری کے لیے حکومت کوئی سنجیدہ حکمت عملی مرتب نہیں کررہی۔‘‘
بلوچستان یونیورسٹی کے عملے نے کوئٹہ میں آج سریاب روڈ پر مالی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک خیراتی مہم کا بھی آغاز کیا۔ یونیورسٹی ملازمین نے چندہ جمع کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں میں ڈبے اٹھا رکھے تھے، جن پر خیرات ، زکٰوۃ اور صدقات کے الفاظ تحریر کیے گئے تھے ۔
وفاقی حکومت بھی بلوچستان کی مقروض
بلوچستان کے مالی بحران کی جہاں دیگر کئی وجوہات ہیں وہیں وفاقی حکومت بھی این ایف سی ایوارڈز کی مد میں بلوچستان کو مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کررہی۔ صوبے میں قدرتی گیس کے ذخائر اور ترسیل کی منتظم سرکاری کمپنی پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی جانب سے گیس رائلٹی کی مد میں تیس ارب روپے کے بقایہ جات بھی صوبے کو ادا نہیں کیے جا رہے۔
پاکستان کے لیے نیا برس ’بقا کے چیلنجز‘ لیے ہوئے
ایک صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان کہتے ہیں کہ مالی بحران کے حل کے لیے وفاقی حکومت نے اقدامات نہ کیے تو صوبے کے انتظامی امور چلانا بھی مشکل ہوجائیں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''اس وقت بلوچستان کے چھ سو ارب روپے کے سالانہ بجٹ میں سے تین سو اسی ارب روپے تنخواہوں ، پنشن اور دیگر غیرسرکاری اخراجات پر صرف ہوجاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،''ایک سو بانوے ارب روپے صوبے کا ترقیاتی بجٹ ہے۔ صوبائی بجٹ پہلے ہی اسی ارب روپے خسارے کا شکار تھا۔ حالیہ سیلاب نے صوبے کا انفراسٹرکچر بھی تباہ کرکے رکھ دیا۔ ہم نے محدود وسائل میں سیلاب زدگان کی مدد کی ۔ اس بحرانی صورتحال میں وفاق کی سطح پر ہمیں مطلوبہ مالی معاونت نہیں مل رہی ہے۔‘‘
زمرک خان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت مطلوبہ رقم بھی فراہم نہیں کر رہی ہے اسی لیے مالی بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔
انہوں نے مذید کہا، ''وفاقی حکومت نیشنل فنانس کمیشن ( این ایف سی ) کے بلوچستان کے لیے مختص حصے میں مسلسل کٹوٹی کر رہی ہے۔ بلوچستان کو اپنے حصے سے گیارہ ارب روپے اور رواں مالی سال میں اب تک ستائیس سے تیس ارب روپے کم ملے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے صوبے کے مالی حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں حکومت کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘‘
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ مالی مشکلات کے ازالے کے لیے صوبائی حکومت اقدامات کر رہی ہے لیکن اس بحران پر قابو پانا مرکزی حکومت کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
کفایت شعاری کے حکومتی دعوے اورغیرضروری اخراجات
کوئٹہ میں مقیم معاشی امور کے ایک تجزیہ کار عبدالرحمٰن کہتے ہیں حالیہ حکومتی اقدامات سے مالی بحران پر قابو پانا ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،'' بظاہر حکومت مالی بحران پر قابو پانے کے لیے اقدامات کے دعوے تو کر رہی ہے لیکن زمینی حقائق اس صورتحال کے برعکس ہیں۔ اس مالی بحران پر قابو اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کم نہیں کرتی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، "بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے صوبے میں درجنوں وزراء اور مشیروں کی تنخواہیں اور دیگر مراعات کم کرنے پرحکومت کو توجہ دینی چاہیے ۔ شاہانہ اخراجات کی وجہ سے صوبائی محکموں کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے ۔ صرف تعلیم نہیں ہر شعبے میں مالی مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔‘‘
عبدالرحمٰن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت مرکزی سطح پر بلوچستان کے مالی بحران کے حل کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام نہیں کر رہی ہے۔ ان کے بقول، ''قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان مالی بحران سے دوچار ہے۔ غیرملکی کمپنیاں مرکزی حکومت کی وجہ سے بلوچستان کے وسائل لوٹ رہی ہیں۔ سرمایہ کاری کے معاہدوں میں بلوچستان کے مالی فوائد کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اگر سیندک، ریکوڈک اور سی پیک منصوبوں کے معاہدوں میں بلوچستان کے حقیقی مفادات کو زیر غور لایا جاتا تو آج صوبہ اس قدر بحرانوں کا شکار نہ ہوتا۔ ریکوڈک منصوبے کے لیے ہونے والے معاہدے میں بھی بلوچستان کے مفادات یکسر نظرانداز کیے گئے۔ ‘‘
واضح رہے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے مالی بحران کی وجہ سے رواں سال سرکاری اسکولوں کے لیے ضرورت کے مطابق کتابوں کی چھپائی بھی تاحال ممکن نہیں ہوسکی جبکہ گزشتہ سال سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاری بحالی کا کام بھی فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے روک دیا گیا ہے۔