مالیاتی بحران کے باوجود امریکی بینک کا ریکارڈ منافع
15 جولائی 2009امریکی بازار حصص کے سب سے بڑے انویسٹمنٹ بینک گولڈمین Sachs نے رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں 33 فیصد منافع کا اعلان کیا ہے جس کا حجم 3.44 بلین ڈالرہے۔
اُدھر امریکی سیکریٹری خزانہ ٹیموتھی گائٹنر کاکہنا کہ عالمی مالیاتی ادارہIMF اور دیگر اقتصادی تجزیہ کار سال کی آخری ششماہی کے لئے اپنی اقتصادی پیشن گوئیوں کا پھر سے جائزہ لے رہے اور ایسا گزشتہ کچھ عرصے میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ گائٹنر نے کہا کہ عالمی تجارت کا حجم بھی بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔
امریکی سیکریٹری خزانہ کہتے ہیں کہ امریکی مالیاتی شعبے کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ واشنگٹن حکومت ایسی پالیسیاں اختیار کرے گی جن سے ڈالر کی قدر بنی رہے۔
اِدھر یورپ کی سب بڑی اقتصادی طاقت جرمنی میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ خبررساں ادارے روئٹرز نے اقتصادی تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے، جرمن سرمایہ کاروں کے اس رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں آئندہ سال تک معیشت میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔ تاہم اقتصادی تجزیہ کار کارسٹین برزیسکی کہتے ہیں کہ جرمنی ہی سب سے پہلے عالمی مالیاتی بحران کے اثر سے نکلے گا لیکن ایسا کب ہوگا، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
یورو زون میں بھی صنعتی پیداوار کے اعدادوشمار مایوس کن ہیں جو ابھی تک گزشتہ سال کے مقابلے میں 17 فیصد منفی جا رہے ہیں۔
مالیاتی بحران کے اس دَور میں ریکارڈ منافع کمانے والے امریکی بینک گولڈمین Sachs کا کہنا ہے کہ رواں برس اپریل سے جون کے عرصے میں اسٹاک مارکیٹوں میں قدرے استحکام رہا، حصص کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور یہ صورت حال بینک کے لئے منافع بخش رہی۔
نیویارک میں اسمتھ ایسٹ منیجمنٹ کے سربراہ ویلیئم اسمتھ نے گولڈمین Sachs کے لئے منافع کی اس شرح کو زبردست قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معیشت کے لئے حالات دشوار ہیں لیکن گولڈمین نے ہر طرح کے حالات میں منافع کمایا ہے اور یہی اس کا کام تھا۔
گولڈمین Sachs نے اس سہ ماہی میں ملازمین کی تنخواہوں اور بونس کی مد میں چھ اعشاریہ چھ پانچ بلین ڈالرکی رقم بھی مختص کر دیے ہیں جبکہ اس بینک نے حال ہی میں اپنی حکومت کو دس بلین ڈالر کے قرضے بھی واپس کئے ہیں جو اس نے مالیاتی بحران کے باعث مدد کے طور پر حاصل کئے تھے۔
دوسری جانب تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی OECD کا کہنا ہے کہ 2010 میں عالمی مالیاتی بحران کے خاتمے تک ترقی یافتہ ممالک میں ملازمتیں کھونے والے افراد کی تعداد 30 ملین ہو جائے گی۔