ماہی گیر سیلاب میں لاپتہ افراد کی تلاش میں سرگرم
25 اگست 2010پاکستان میں تین ہفتے قبل آنے والے خطرناک ترین سیلاب نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اب بھی سندھ کے شمال مغرب کے کئی علاقے ملک سے کٹے ہوئے ہیں۔ پانی کی زد میں آنے والوں تک امداد پہنچانا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے، جس کے باعث بہت سارے لوگوں کو کھانے پینے کے ضروری سامان کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مظفر ایک ماہی گیر ہے۔ دو افراد پر مشتمل اپنے عملے کے ساتھ یہ ماہی گیر ’فشر فولک فورم‘ نامی ایک گروپ کا رکن ہے۔ یہ گروپ مچھیروں کی مدد کرتا ہے لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر اس نے دو کشتیاں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے بھی مہیا کی ہیں۔ مظفر کا کہنا ہے کہ اس نے اور اس کے دیگر ساتھیوں نے اب تک سینکڑوں متاثرہ افراد کو سیلاب زدہ دیہات سے محفوظ مقامات کی جانب منتقل کیا ہے:’’صرف گزشتہ تین روز میں ہم نے شہداد کوٹ کے قریب واقع سیلاب زدہ دیہات سے متعدد متاثرہ افراد کو باہر نکالا ہے۔‘‘
مظفر کے مطابق متعدد باغات، کھیت اور رہائشی علاقے زیر آب آ گئے ہیں جبکہ اب سانپ اور دیگر خطرناک جانور بھی پانی میں تیرتے نظر آ رہے ہیں۔
مظفر کی طرح احمد علی نامی ایک اور ماہی گیر نے بھی کئی متاثرہ افراد کو بچایا ہے۔ علی کہتے ہیں کہ پانی پر ان کا کنٹرول نہیں ہے تاہم ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی کشتی کے ساتھ جہاں تک پہنچ سکیں، پہنچ جائیں:’’جہاں سے راستہ ملتا ہے، ہم وہیں سے آگے بڑھتے ہیں اور مدد کے طلب گار افراد کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
احمد علی نے بتایا کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ہے:’’پیسہ آتا ہے، جاتا ہے لیکن لوگوں کی مدد کر کے اُن کی جان بچانا اچھا کام ہے۔ یہ جذبہ بہت اہم ہے۔‘‘
مظفر اور علی کی طرح بہت سارے ماہی گیر ایسے ہیں، جو اپنے معمول کے کاروبار کی طرف دوبارہ لوٹنے سے پہلے متاثرہ افراد کی مدد کرنے کا انسانی جذبہ رکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں اب تک تین ہزار چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ متاثرین کی مجموعی تعداد دو کروڑ سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجَد علی