1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ ایرانی جوہری پروگرام کے مذاکرات میں پیش رفت کا ’امکان‘

عابد حسین3 جنوری 2015

ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران حکومت کے متنازعہ جوہری پروگرام پر بات چیت کا نیا دور پندرہ جنوری سے شروع ہو گا لیکن امریکا اور ایران نے ایسے اشارے دیے ہیں کہ مذاکراتی عمل میں پیش رفت کا امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/1EEVD
ایرانی اور امریکی وزرائے خارجہ کیتھرین ایشٹن کے ہمراہتصویر: picture-alliance/AP Photo/Joe Klamar

سفارتی حلقوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ امریکا اور ایران اِس پر متفق ہو گئے ہیں کہ ایرانی جوہری معاملے میں مناسب انداز میں بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ اس حوصلہ افزاء پیش رفت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تہران حکومت جوہری ہتھیار سازی کے ممکنہ رِسک کو کم کرنے کے لیے اپنا افزودہ مواد روس یا کسی دوسرے ملک میں منتقلی کے لیے رضامند ہو سکتی ہے۔ آج ہفتے کے روز ایران کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخام نے کسی بھی عبوری فارمولے پر اتفاقِ رائے کی تردید کی ہے۔ دوسری جانب مذاکرات کاروں کا خیال ہے کہ ایک اجمالی ڈیل مارچ تک طے کر لی جائے گی اور پھر حتمی معاہدہ تیس جون تک طے پا جائے گا۔ سفارتی حلقوں کے مطابق پہلی مرتبہ گزشتہ برس دسمبر میں مکمل ہونے والے مذاکرائی دور میں متنازعہ امور کی فہرست مکمل کرنے کے علاوہ حتمی ڈیل کے لیے طے پانے والے امور کی بھی فہرست مرتب کی گئی ہے۔

سفارتی حلقوں کے مطابق ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں اختلاف کا مرکزی نکتہ یورینیم کی افزودگی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ایک خاص سطح تک افزودہ کی گئی، یورینیم جوہری ہتھیار سازی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اب اِس متنازعہ معاملے پر امریکا نے تجویز کیا ہے کہ ایران زیادہ تر افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کسی اور ملک میں منتقل کر دے۔ ابھی تک ایران اِس تجویز پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ بھی ابھی طے نہیں کہ ایران افزودہ یورینیم کا کتنا ذخیرہ کسی اور ملک منتقل کرنے پر تیار ہو سکتا ہے۔ مذاکراتی عمل سے وابستہ ایک سفارت کار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ امریکی تجویز پر ایران کی جانب سے مثبت ردعمل دیکھا گیا ہے۔

Iran Atomgespräche 21.11.2014 Wien
ایرانی جوہری پروگرام پر مذاکرات کا سابقہ دورتصویر: Reuters/Heinz-Peter Bader

اسی طرح رواں برس کے مذاکرات کے دوران ایران کی جانب سے افزودہ یورینیم کی پیداوار کے حجم کو بھی طے کرنا باقی ہے۔ امریکا کا اصرار ہے کہ ایران افزودگی کے عمل کو نصف کم کر دے۔ اگر ایران اِس تجویز سے اتفاق کرتا ہے تو پھر اُس کے پاس 45 سو سینٹری فیوجز رہ جائیں گے جب کہ ایران اپنے یورینیم افزودگی کے ایڈوانس لیول میں بیس فیصد کی کمی پر تیار دکھائی دیتا ہے۔ دو دوسرے حل طلب معاملات میں فوردو کا زیرزمین جوہری مرکز اور اراک نیوکلیئر ری ایکٹر کی تعمیر ہے۔ عالمی طاقتوں نے تجویز کر رکھا ہے کہ ایران فوردو کے جوہری مرکز کو افزودگی کے عمل سے دور رکھے اور اسی طرح اراک کے نیوکلیئر ری ایکٹر کے ڈیزائن میں تبدیلی کو بھی تجویز کیا گیا ہے۔

پندرہ جنوری سے شروع ہونے والے مذاکراتی دور میں بھی کئی اہم اختلافی معاملات پر بات چیت کو آگے بڑھانا اہم خیال کیا گیا ہے۔ وسطِ جنوری سے شروع ہونے والے مذاکراتی راؤنڈ کا میزبان سوئٹزرلینڈ کا شہر جنیوا ہے۔ اِس مذاکراتی عمل میں اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے ساتھ جرمنی بھی شریک ہے۔ پانچ مستقل اراکین میں روس، امریکا، برطانیہ، چین اور فرانس شامل ہیں۔ عالمی طاقتوں کو خدشات لاحق ہیں کہ ایران کی حکومت اپنے جوہری پروگرام کے تحت ایٹمی ہتھیار سازی کی تمنا رکھتی ہے جبکہ ایران مسلسل جوہری ہتھیار سازی کا انکار کرتا چلا آ رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید