1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مظاہرے میں شامل ہونے پر جرمن طالب علم کو بھارت چھوڑنے کا حکم

جاوید اختر، نئی دہلی
24 دسمبر 2019

بھارت کے معروف تعلیمی ادارے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) چنئی میں زیر تعلیم ایک جرمن طالب علم کو شہریت ترمیمی ایکٹ یا سی اے اے کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرنے پر فوری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گيا۔

https://p.dw.com/p/3VILu
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/S. Sen

جنوبی جرمنی سے تعلق رکھنے والے یاکوب لِنڈن تھال ان سرکاری احکامات کے بعد بھارت میں اپنی ماسٹرز کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس اپنے وطن روانہ ہوگئے ہیں۔ یاکوب لِنڈن تھال نے اپنی جرمنی روانگی سے قبل مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چنئی میں خارجہ تعلقات کے مقامی رجسٹریشن آفس یا ایف آر آر او نے انہیں اپنے ہاں طلب کر کے 'زبانی طور پر‘ لیکن فوراﹰ بھارت چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دے دیا تھا۔

لِنڈن تھال نے کہا، ''میں ایک اسپورٹس ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے پچھلے چند دنوں سے بنگلور میں تھا، جہاں مجھے FRRO کی ایک ای میل موصول ہوئی۔ جب میں واپس چنئی پہنچا، تو میرے کورس کوآرڈینیٹر نے مجھے امیگریشن حکام سے فوری ملاقات کا مشورہ دیا۔ جب میں اس دفتر میں پہنچا، تو حکام نے مجھے بتایا کہ بھارت میں میرے رہائشی پرمٹ سے متعلق کچھ انتظامی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ میں نے ان کے تمام سوالات کے جواب دیے اور مجھے لگا کہ میرے رہائشی پرمٹ سے متعلق تو کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔‘‘

یاکوب لِنڈن تھال نے مزید بتایا، ''اس کے بعد انہوں نے میری سیاست میں دلچسپی اورمشاغل کے بارے میں سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔ پھر انہوں نے مجھ سے شہریت ترمیمی قانون اور قومی شہریت رجسٹر کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے بارے میں سوالات بھی کیے۔ اس دوران ہماری احتجاجی مظاہروں کی روایت سے متعلق بات چیت بھی ہوئی۔ آخر میں اس دفتر کے افسران نے کہا کہ مجھے فوراً بھارت چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ میں نے اسٹوڈنٹ ویزا سے متعلق ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘

Indien Protest gegen neues Einbürgerungsgesetz
تصویر: DW/D. Choubey

اس جرمن طالب علم کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے چنئی میں حکام سے اس حوالے سے ایک تحریری حکم نامے کا مطالبہ بھی کیا تھا اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ انہیں اس حکم کی تحریری اطلاع بھی دے دی جائے گی۔ لیکن مجھے یہ بات تحریراﹰ نہیں بتائی گئی۔‘‘ یاکوب لِنڈن تھال نے بھارت کے ایک معروف انگریزی اخبار کو بتایا کہ حکام نے انہیں ان کا پاسپورٹ لوٹاتے ہوئے بتایا کہ اب وہ واپس جرمنی جا سکتے ہیں۔ لِنڈن تھال کا کہنا تھا کہ واپس کیمپس آنے کے بعد انہوں اپنی جرمنی واپسی کا ہوائی ٹکٹ بک کیا اور پھر اپنا سامان لے کر ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔"

یاکوب لِنڈن تھال جرمن شہر ڈریسڈن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور وہ طلبہ کے تبادلے کے ایک دوطرفہ پروگرام کے تحت چنئی شہر میں قائم آئی آئی ٹی کے شعبہ طبیعیات میں زیر تعلیم تھے۔ انہیں اپنا تعلیمی کورس مکمل کرنے کے لیے مئی 2020ء تک بھارت میں قیام کا ویزا جاری کیا گیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ آئی آئی ٹی چنئی کے طلبہ نے پچھلے دنوں اس ادارے کے کیمپس اور دیگر مقامات پر متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کیے تھے، جن میں ۔ یاکوب لِنڈن تھال بھی شریک ہوئے تھے۔ تب انہوں نے اپنے ہاتھ میں جو پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، اس پر نازی جرمن دور کے واقعات کے حوالے سے لکھا ہوا  تھا: '' 1933ء سے لے کر 1945ء تک ہم یہ سب بھگت چکے ہیں۔‘‘ ان کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔

اس جرمن طالب علم کے مطابق، ''امیگریشن حکام نے مجھ سے ان مظاہروں میں میری شرکت اور ان کا انتظام کرنے والے مارکسی گروپ 'چنتا بار‘ کے ساتھ ممکنہ تعلقات کے بارے میں بھی سوالات کیے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا اس گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر افسران کا کہنا تھا کہ شاید میں نے لاعلمی میں ان مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ لیکن میں نے ان پر واضح کیا کہ ایسا بھی قطعاﹰ نہیں تھا۔ میں ان مظاہروں میں اس لیے شریک ہوا کہ ان کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔ میں بھارتی طلبہ کے ساتھ اس احتجاج میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے شریک ہوا تھا کیوں کہ دنیا بھر میں سبھی انسانوں کے بنیادی حقوق تو ایک ہی جیسے ہیں۔‘‘

’مودی حکومت خاموش کرائے گی تو دیواریں بھی بولیں گی‘

جرمنی کے جنوبی حصے سے تعلق رکھنے والے اس طالب علم کے الفاظ میں، ''مجھے چنئی کا آئی آئی ٹی کیمپس بہت پسند ہے، مجھے بھارت سے محبت ہے۔ لیکن میں اس ملک میں آزادی پر قدغنیں لگانے کی کوششوں پر کافی فکر مند بھی ہوں۔ جرمنی میں تو قانونی طور پر جائز ایسے کسی مظاہرے میں شرکت کرنے پرکسی کو اس طرح کی سزا دینے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔‘‘

چنئی میں آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر نے اس واقعے پر کوئی بھی ردعمل ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے چند دنوں کے دوران اپنے ادارے سے باہر تھے اور فی الحال حقائق کا پتہ لگا رہے ہیں۔ دوسری طرف امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ اگر یاکوب لِنڈن تھال نے کسی احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا تھا تو یہ ویزا ضابطوں کی 'صریح خلاف ورزی‘ ہے۔ لیکن اس معاملے میں یہ ملک بدری نہیں بلکہ ویزا منسوخ کیے جانے کی بات ہے۔"

دریں اثناء احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کرنے والے گروپ 'چنتا بار‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ”ہم بھارت میں عوامی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد میں شمولیت اور انسانیت کے حوالے سے فکر مندی پر یاکوب لِنڈن تھال کے ممنون ہیں اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔"

چنئی میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بھارت کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کے قیام میں جرمنی کا مالی تعاون بھی شامل تھا۔ جرمنی کے متعدد صدور اور وفاقی چانسلر بھی اس ادارے کے دورے کر چکے ہیں۔

بابری مسجد کے انہدام کو ستائیس سال ہو گئے، بھارت میں مظاہرے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں