متنازعہ کار ٹونسٹ پر حملے کی کوشش، ملزم پر اقدام قتل کا مقدمہ
2 جنوری 2010مشتبہ حملہ آور کو ہفتہ کو عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں اس نے الزامات سے صاف انکار کیا۔ پولیس نے اس کا تعلق صومالیہ کی شدت پسند تنظیم الشباب سے بتایا ہے۔
قبل ازیں جمعہ کی شب تین حملہ آوروں نے چوہتر سالہ کُرٹ ویسٹیرگارڈ کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی۔ تاہم پولیس کی کارروائی میں ایک حملہ آور زخمی ہو گیا ہے۔ ڈنمارک کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک حملہ آور ویسٹیرگارڈ کے گھر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقت ویسٹیرگاڑد اپنی اہلیہ اور پوتے پوتیوں کے ساتھ گھر پر موجود تھے۔ حملہ آور نے مبینہ طور پر کارٹونسٹ کو دھمکانا شروع کر دیا۔
اس دوران ویسٹیرگارڈ نے ہنگامی الارم بجا دیا۔ پولیس فوری طور پر پہنچ گئی۔ فائرنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں حملہ آور زخمی ہو گیا۔ پولیس نے حملہ آور کی ٹانگ اور بازو پر گولی ماری۔
بتایا جاتا ہے کہ تین افراد نے مغربی شہر آرہس میں کارٹونسٹ کرٹ ویسٹیرگارڈ کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی۔ پولیس نے ویسٹرگارڈ کے گھر پر بم نصب کئے جانے کے خدشے کے تحت علاقے کا گھیراؤ کیا اور تلاشی لی۔
ویسٹیرگارڈ کے بنائے ہوئے کارٹون ڈنمارک کے ایک اخبار میں ستمبر 2005ء میں شائع ہوئے تھے۔ وہ اُن بارہ کارٹونسٹوں میں سے ایک ہیں، جن کے متنازعہ خاکوں پر 2006ء کے اوائل میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے غم و غصہ ظاہر کیا تھا۔
مسلمانوں کے نزدیک یہ کارٹون ہتک آمیز تھے، یہی وجہ تھی کہ متعدد مسلم ممالک میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ اس دوران متعدد ممالک میں ڈنمارک کے سفارت خانوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ ہنگامہ آرائی کے واقعات میں متعدد افراد ہلاک بھی ہوئے۔ کئی مقامات پر مظاہرین نے ڈنمارک کا پرچم نذرآتش کیا۔ ان مظاہروں کے حوالے سے شام، لبنان، نائجیریا، لیبیا اور پاکستان قابل ذکر ہیں۔
پیغمبر اسلام کے متنازعہ کارٹون بنانے والے ویسٹیرگارڈ کو قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں، جس پر انہوں نے خفیہ زندگی اختیار کر لی۔ تاہم گزشتہ برس وہ یہ کہتے ہوئے منظر عام پر آئے کہ وہ معمول کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ویسٹیرگارڈ کے گھر میں ہنگامی الارم نصب ہیں، جن کے بجنے پر پولیس منٹوں میں وہاں پہنچ سکتی ہے۔
بعض مسلم شدت پسند گروپوں نے ویسٹیر گارڈ کو قتل کرنے والے کے لئے دس لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: گوہر نذیر گیلانی