مجوزہ افغان امریکی سمجھوتہ ایک واضح سگنل
10 اگست 2013آج ہفتے کو خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں ڈنفورڈ نے کہا کہ اس مجوزہ سمجھوتے کو افغان عوام کے لیے بھی اور طالبان کے لیے بھی اس بات کا ایک واضح اشارہ ہونا چاہیے کہ غیر ملکی دستوں کے انخلاء کے باوجود بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کے استحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
ڈنفورڈ نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس سمجھوتے پر عنقریب دستخط ہونے والے ہیں تاہم حالیہ کچھ دنوں کے دوران ایسے کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ یہ مرحلہ اب قریب ہی ہے۔
گزشتہ مہینے امریکی جنرل اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مارٹن ڈیمپسی نے کہا تھا کہ اُن کے خیال میں یہ سمجھوتہ اکتوبر تک ہو جانا چاہیے تاکہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو 2014ء کے بعد مکمل انخلاء کی بجائے اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کی تیاریوں کے لیے کافی وقت مل سکے۔
جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا کہ اس سمجھوتے پر دستخط ہو جانے کے بعد علاقائی طاقتوں کو بھی واضح طور پر یہ پتہ چل جائے گا کہ امریکا اور باقی بین الاقوامی برادری آئندہ بھی ایک مستحکم، پُر امن اور متحد افغانستان کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
اس سمجھوتے کے تحت 2014ء کے بعد بھی غیر ملکی دستوں کی ایک قلیل تعداد افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کے لیے یا دہشت گردی کے انسداد کی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے افغانستان میں تعینات رہ سکے گی۔ اگرچہ ابھی تک اس فورس کی کوئی تعداد نہیں بتائی گئی تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں امریکا کے 9 ہزار اور اُس کے اتحادی ممالک کے 6 ہزار فوجی شامل ہوں گے۔
آج کل افغانستان میں 66 ہزار امریکیوں سمیت اڑتالیس ممالک کے کوئی ایک لاکھ فوجی تعینات ہیں۔ آئندہ فروری تک امریکی فوجیوں کی تعداد کم ہو کر 34 ہزار رہ جائے گی جبکہ نیٹو فوجیوں کی تعداد میں نصف کمی ہو جائے گی۔ ڈنفورڈ نے کہا کہ اگر اس دو طرفہ سمجھوتے پر دستخط نہ ہو سکے تو پھر اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ 2014ء کے بعد امریکا یا اُس کے اتحادی ممالک میں سے کوئی اپنے دستے افغانستان میں تعینات رکھے گا۔ جرمنی پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اُس کے سینکڑوں تربیت کنندگان اُسی صورت میں افغانستان میں موجود رہیں گے، جب امریکا اور دیگر ممالک بھی تربیتی مشن کا حصہ ہوں گے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے قطر کے دارالحکومت میں طالبان کا دفتر کھلنے کے بعد اس دو طرفہ سمجھوتے پر بات چیت معطل کر دی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ طالبان کے ساتھ مجوزہ امن مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی تعطل کا شکار ہو گئے۔
جوزف ڈنفورڈ نے کہا:’’مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اس تنازعے کا صرف اور صرف کوئی سیاسی حل ہی ہونا چاہیے اور میرے لیے یہ بات باعث تعجب نہیں ہے کہ یہ امن مذاکرات مشکل ثابت ہو رہے ہیں۔ ہم دو ایسے گروپوں کے مابین مصالحت کروانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار رہے ہیں۔‘‘
ڈنفورڈ نے اس یقین کا اظہار کیا کہ تین لاکھ باون ہزار کی نفری کی حامل افغان سکیورٹی فورسز، جو اٹھارہ جون سے افغانستان میں امن و امان کی مکمل ذمے داری سنبھال چکی ہیں، باغیوں کا مقابلہ کر سکیں گی۔ تاہم اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ان سکیورٹی فورسز کو ابھی مزید تربیت کی ضرورت ہو گی۔