مجھے جلد از جلد فرانس کے حوالے کیا جائے، صالح عبدالسلام
24 مارچ 2016جمعرات کو بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں پیرس حملوں کے مرکزی مشتبہ ملزم کے وکیل دفاع سوین ماری کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صالح عبدالسلام چاہتا ہے کہ ’جتنی جلد ممکن ہو‘، اسے پیرس حکام کے حوالے کر دیا جائے۔ عبدالسلام کو مسلسل چھاپوں اور پولیس کی طرف سے طویل تلاش کے بعد گزشتہ جمعے کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تفتیشی حکام کے مطابق اس ملزم کے ممکنہ طور پر برسلز کے حملہ آوروں سے بھی رابطے رہے ہوں گے۔ دوسری جانب عبدالسلام نے ایسے کسی بھی ممکنہ رابطے کی تردید کی ہے۔ وکیل دفاع سوین ماری کا کہنا تھا کہ عبدالسلام کو برسلز ایئر پورٹ اور میٹرو ٹرین حملوں کے بارے میں بالکل بھی ’کوئی علم نہیں‘ تھا۔
وکیل دفاع نے بتایا کہ چھبیس سالہ عبدالسلام برسلز حملوں کے بارے میں تفتیش کاروں سے کسی بھی قسم کا تعاون اس وجہ سے نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ اسے ان کا بالکل علم ہی نہیں تھا۔ یورپ ون ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے سوین ماری کا کہنا تھا، ’’وہ مجھ سے ملاقات کرنا چاہتا تھا کیوں کہ تفتیش کاروں کی ایک ٹیم اس کے پاس پہنچی تھی۔ اس نے تفتیش کاروں سے کسی بھی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق عبدالسلام اس وجہ سے بھی پیرس میں حکام کے حوالے کیا جانا چاہتا ہے کیوں کہ وہاں اسے صرف پیرس حملوں کے حوالے سے دائر کیے جانے والے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ برسلز میں اسے ایئرپورٹ اور میٹرو ٹرین حملوں کے مقدمات میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
برسلز حملوں کے حوالے سے صالح عبدالسلام کی رائے کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس کے وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ یہ جاننا ضروری نہیں کہ وہ اس بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے؟
عبدالسلام کو گرفتاری کے وقت ٹانگ پر گولی لگی تھی اور اس کے وکیل کے مطابق اب عبدالسلام کا زخم آہستہ آہستہ بہتر ہو رہا ہے کیوں کہ یہ شدید نوعیت کا زخم نہیں تھا۔ تفتیش کاروں کے مطابق پیرس حملوں میں صالح عبدالسلام کا ایک مرکزی کردار تھا اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس نے آخری لمحے پر اپنی خودکش جیکٹ اتار کر پھینک دی تھی۔
اس مشتبہ ملزم کو چار ماہ کی مسلسل تلاش کے بعد جمعے کے روز گرفتار کیا گیا تھا اور اسے بیلجیم کے شمال میں واقع ایک ہائی سکیورٹی جیل میں رکھا گیا ہے۔ سوین ماری کے مطابق پیرس حملوں کے معاملے میں ملزم تفتیش کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے۔