کروڑ پتی بیوپاری مرلی دھر ہو یا مینگراج، انگریز نما آغا صاحب ہوں یا کریانے کی دکان والے مستو بھائی، جنہیں ہم سب کنجوس مکھی چوس کہتے تھے، سب ہی چندہ دیتے تھے۔
محلے کی خالہ مہربانو، جو پورے سال بچوں کو کھیل کود پر ڈانٹ ڈپٹ کرتیں تھیں، وہ ہماری سبیل کے لیے برتنوں کا انتظام کرتیں۔ مجلس میں آتے جاتے ساتھ سبیل پر وقت گزارتیں، عزا دارین کے لیے پانی اور شربت انڈیلتیں۔
خالہ مہربانو محلے کے بچوں میں مجھ سے چاہت سے پیش آتیں۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ محلے پڑوس کی بڑی بوڑھیوں کو یہ کہتے سنا تھا کہ دیکھو جیسے مہربانو کے گھر میں جامن کا درخت بنا پھل کے رہتا ہے ویسے ہے اس کی گود نہیں بھرتی۔ مجھے یہ فقرے ناگوار گزرتے۔ اتنی تو سمجھ ہمیں بھی تھی، تو خالہ مہربانو سے ایک ناطہ جوڑا۔
ہر برس محرم کے ایام میں یوں سمجھ لیجیے کہ میری ڈیوٹی ہوتی کہ میں ان کا بازو تھام کر محلے سے گزرنے والے جلوسوں میں تعزیہ اور یوم عاشورہ پر ذوالجناح کے قریب پہنچاتا۔ وہ عقیدت سے ہاتھ پھیرتیں اور منت مانگتیں۔
شہر کے بیشتر جلوس ہمارے محلے سے ہی گزرتے تھے۔ ہر شام محلے کی خواتین اور لڑکیاں ہمارے گھر آتیں اور گھر کی بالکونیوں اور بڑی بڑی کھڑکیوں سے عزا دارین کو عقیدت سے دیکھتیں۔
لکھنو سے ہجرت کر کے لاڑکانہ میں بس جانے والے جعفری اور نقوی خاندانوں کی سربراہی میں نکلنے والا جلوس۔ خالصتاﹰ لکھنو طرز کی اُردو زباں میں نوحہ خوانی ہوتی۔ ایران کے فارسی بان سناروں کا جلوس، کاندھوں پر تعزیے، انتہائی نفیس مینا کاری مگر سائز میں نسبتا چھوٹے۔ کہا جاتا تھا کہ خالص سونے کے ہیں۔
سنیوں کے جلوس، عاشورہ کے روز خادم حسین شاہ کے امام بارگاہ سے جلوس آتا۔ سرائیکی اور سندھی میں نوحہ خوانی ہوتی۔ ہتھ گاڑی پر بڑا ڈھول ہوتا جسے ایک شخص زور زور سے پیٹتا۔
شام ہوتی تو قافلہ سرائے پر رہنے والی طوائفوں کا جلوس برآمد ہوتا۔ یہ جلوس ہمارے گھر سے کچھ فاصلے سے ہوتا ہوا پاکستان چوک ہر رکتا۔ سورج ڈھلنے سے قبل زنجیروں کا ماتم ہوتا، دیکھنے کے لیے محلے کے نوجوانوں کی ٹولیاں بھی ہوتیں۔
محرم کے ہی ایام میں لاڑکانہ میں تھر کے صحرا سے ہندو برادری کے نوحہ خواں دعوت پر بلائے جاتے، جو مجالس میں نوحہ خوانی کرتے۔ چاہے ہندو ہوں یا مسلمان سنی ہوں یا شعیہ، مقامی سندھی ہوں یا اردو بولنے والے مہاجر مذہبی رواداری اور بھائی چارہ سے رہتے۔ ہولی ہو یا دیوالی یا پھر محرم ہو یا رمضان اور عید، نہ صرف احترام ہوتا بلکہ اپنے اپنے وجود کے احساسات کو دوسروں کے تہواروں اور عقائد کی روایتوں میں احتراماﹰ شامل کرتے۔
سندھ کی تاریخ پر ساٹھ کی دہائی میں خیرپور کے فرقہ وارانہ خونی تنازعہ کی چھینٹیں تو موجود تھیں لیکن بچپن کی یادوں میں اکا دکا ناچاقیوں کے علاوہ ایک دوسرے کے لیے احترام ہی پایا۔ محرم کے جلوسوں میں نہ سکیورٹی، نہ کوئی خدشہ نہ خوف۔ ہر جلوس کے ساتھ منتظمین کے زیر نگرانی اسکاؤٹس کے تربیت یافتہ نوجوان لڑکوں کے گروہ ڈسپلن برقرار رکھنے کی ڈیوٹی پر مامور ہوتے۔ نہ رینجرز، نہ پولیس، نہ فوجی دستے۔
ان ہی یادوں کے ساتھ جب میں کراچی آیا تو اسی کی دہائی تھی۔ جنرل ضیاء کا دور تھا۔ پڑوسی ملک ایران میں امام خمینی نے انقلاب برپا کر دیا تھا۔ جنرل ضیاء پاکستان کو امریکہ کی ایما پر افغانستان کی جنگ میں دھکیل چکے تھے۔ فرقہ وارانہ گروہ جنم لے چکے تھے۔ ایران سعودی عرب کی پراکسی وار کی شدت کی حدت ہم سب محسوس کر رہے تھے۔
یاد ہے نوے کی دہائی میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول میں کراچی کے گلبہار کے علاقے میں رپورٹنگ کے لیے جانا ہوا۔ نقاب پوش مسلح افراد نے گھیرے میں لیا۔ ایک نے پستول کی نالی کا رخ میری طرف کیا۔ قسمت تھی کی ان ہی مسلح افراد میں ایک نوجوان کا تعلق ایم کیو ایم سے نکلا، کہیں ملاقات ہوئی ہو گی۔ شناسائی جان بخشی میں تبدیل ہوئی ۔ کہنے لگا، ''اویس بھائی کیوں جان کے پیچھے پڑے ہو۔ محرم ہے، جھگڑے ہیں اور آپ کالی قمیص پہن کر نکلے ہو، کیا پاگل ہو گئے ہو؟‘‘
ہر طرف پولیس اور رینجرز کے گھیرے۔ علاقے سے باہر نکلا تو اس احساس نے جنجھوڑ کر رکھا دیا۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت اس حد تک، اسی شہر میں شعیہ سنی ٹارگٹ کلنگ میں وکلاء اور ڈاکٹر وں کی جانیں لی گئیں۔
سال گزرتے چلے گئے، نائن الیون کے بعد پاکستانی طالبان کی افغانستان کی طرح انتہا پسند نظام کو معاشرے پر تھوپنے کی کوشش ہوئی۔ وزیرستان سے پشاور تک، لاہور اور کراچی سے لے کر کوئٹہ تک دھماکے ہی دھماکے تھے۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت میں بارود کی آمیزش تھی اور دل دہلا دینے والے مناظر سب نے دیکھے۔ کراچی میں عاشورہ، ہزاروں کا جلوس، دھماکہ، خون آلود لاشیں، بارود کے دھویں سے اٹھنے والے بادل۔
ادھر کوئٹہ کی سرد برفانی راتیں، ہزارہ برادری کی خواتین اور بچیاں جنازوں کے ساتھ سراپا احتجاج۔ آنسو گویا جیسے وجود کے ساتھ جڑ سے گئے ہوں۔ ذہن کو کھرچیں تو پھر بھی یادوں سے نہ مٹنے والے مناظر ابھی تک زندہ ہیں۔
چند گزرے سالوں میں بڑا سانحہ تو نہیں ہوا لیکن اب محرم کی آمد ہوتی ہے تو اعصابی تناؤ کے گھیرے آپ کے ارد گرد حصار کھینچ لیتے ہیں۔
یہاں آج بھی جگہ جگہ پولیس اور رینجرز کے سکیورٹی اہلکار کھڑے ہیں لیکن میرے ذہن میں بچپن کی یادوں کے مناظر گردش کر رہے ہیں۔ میرے آبائی گھر لکھپت بھون کی دہلیز پر سجی سبیل، محلے سے مختلف جلوسوں کا گزرنا، خالہ مہربانو لیکن یادیں دھندلا سی کیوں گئی ہیں؟ شاید تاریخ کی تلخ تبدیلیوں نے میرے بچپن کی یادوں کو بھی مسخ کر دیا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔