محمد بن سلمان کے خلاف جرمنی ميں شکايت درج
4 مارچ 2021'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (RSF) نے تين سو سے زائد صفحات پر مشتمل شکايت درج کرائی، جس ميں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور حکومت کی ديگر شخصيات پر انسانيت کے خلاف جرائم جيسے سنگين الزامات عائد کيے گئے ہيں۔ ادارے نے ايک سال مختلف عينی شاہدين اور متاثرين سے شواہد اکھٹے کيے، جس کے بعد جرمن وفاقی دفتر استغاثہ سے رجوع کيا گيا۔
خاشقجی قتل کیس: سعودی عرب کے خلاف امریکا کا خاموش رد عمل
سعودی عرب نے خاشقجی کے قتل پر امریکی رپورٹ مسترد کر دی
شکايت ميں صحافی جمال خاشقجی کا استنبول ميں سعودی قونصل خانے ميں قتل کا بھی ذکر ہے۔ علاوہ ازيں چونتيس صحافيوں کی جبری حراست کا حوالہ بھی ديا گيا ہے، جن ميں بلاگر رائف بداوی بھی شامل ہيں۔ بداوی نے سعودی حکومت پر تنقيد کی تھی، جس پر انہيں دس سال قيد کی سزا سنا دی گئی تھی۔ يہ امر اہم ہے کہ ورلڈ پريس فريڈم انڈيکس ميں 180 ممالک کی درجہ بندی ميں سعودی عرب کی پوزيشن 170 ويں ہے۔
جرمنی ميں ہی شکايت کيوں؟
سن 2002 ميں منظور کردہ VStGB نامی جرمن قانون کے مطابق انسانيت کے خلاف جرائم کی تشريح ايسے کی گئی ہے کہ 'کسی بھی سويلين آبادی کے خلاف وسيع پيمانے پر اور منظم حملے‘۔ آرٹيکل ون جرمن استغاثہ کو يہ اختيار ديتا ہے کہ وہ اور عدالتيں ان جرائم پر بھی کارروائی کر سکتے ہيں ، جو جرمنی سے باہر سرزد ہوئے اور جرمن شہرويوں کے نہيں بلکہ ديگر ملکوں کے شہريوں کے خلاف ہوئے۔
سعودی حکام کے خلاف يہ قانونی کارروائی دی ہيگ کی بين الاقوامی فوجداری عدالت ميں بھی ہو سکتی تھی مگر چوں کہ سعودی عرب آئی سی سی کا رکن نہيں اور رياض حکومت نے اس عدالت کی بنياد بننے والے معاہدے پر دستخط نہيں کيے، اس ليے يہ ممکن نہيں۔ آئی سی سی ميں پھر بھی کارروائی ممکن ہے مگر اسی صورت جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس عدالت سے رجوع کرے۔
جرمن وزير خارجہ ہائيکو ماس نے گزشتہ برس اکتوبر ميں اپنی ايک تقرير ميں کہا تھا، ''کئی مرتبہ سنگين جرائم پر کارروائی ممکن نہيں ہو پاتی۔ اس کی جزوی وجہ يہ ہے کہ سلامتی کونسل کے تين مستقل ارکان چين، روس اور امريکا، آئی سی سی کو مانتے ہی نہيں۔‘‘
کيا جرمنی ميں اس شکايت پر قانونی کارروائی ہو گی؟
برلن ميں قائم غير سرکاری تنظيم يورپی سينٹر برائے آئينی و انسانی حقوق کے ڈائريکٹر وولف گانگ کيلک کے مطابق ماضی ميں جرمن حکام يہ بات واضح کر چکے ہيں کہ دنيا ميں ہر اس جگہ جہاں مبينہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزياں جاری ہيں، ان کی تفتيش ممکن نہيں۔
کيلک کے بقول ايسے معاملات ميں سفارتی تعلقات اہم ہوتے ہيں، ''انسانی حقوق کی خلاف ورزياں کرنے والے اگر طاقت ور ہوں، تو معيارات مختلف ہوتے ہيں۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ سعودی عرب کافی طاقت ور معيشت ہے۔‘‘
ع س / ع ب (ماتھياس فان ہائن)