کورونا وائرس کی وبا میں روما خانہ بدوش نظرانداز
5 اپریل 2020کووڈ انیس کی وبا سے یورپ کے خانہ بدوشوں کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ انہیں روما کہا جاتا ہے اور یہ مختلف یورپی ملکوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
روما خانہ بدوش پسماندہ اور غریب انسانوں کا ایک ایسا نسلی گروپ ہے، جو صدیوں سے وسطی اور جنوب مشرقی یورپی ممالک میں گھوم پھر کر اور خیمہ زن ہو کر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کو مناسب طبی سہولیات اور خیموں میں رہنے کی وجہ سے سیوریج کی بنیادی سہولیات بھی مناسب انداز میں میسر نہیں۔
ایسے میں کووڈ انیس کی بیماری ان کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتی ہے اور یہ امر کئی یورپی سماجی حلقوں میں باعثِ تشویش ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روما باشندوں کو یورپی سطح پر نسل پرستی اور تعصب کا سامنا رہا ہے۔ تاہم اب اس وبا کے پھیلنے کے بعد سلوواکیہ، رومانیہ اور بلغاریہ کی حکومتوں نے ان کی نقل و حرکت پر مزید سخت پابندیں عائد کر دی ہیں۔ ان حکومتوں نے ان خانہ بدوشوں کو محدود کرنے کے لیے فوج اور پولیس کو استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
روما کے حقوق کے لیے سرگرم گروپوں نے رومانیہ، بلغاریہ اور سلوواکیہ کے ان اقدامات کو سنگین قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ایسے غریب افراد کو مزید تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان کو پابندیوں میں جکڑنا مناسب اور جائز نہیں ہے۔
اندازوں کے مطابق مختلف یورپی ملکوں میں دس سے بارہ لاکھ روما مقیم ہیں۔ انہیں یورپ کی سب سے بڑی اقلیت بھی کہا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے یورپی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے بڑی عمر کے روما خانہ بدوش کورونا وائرس کی نئی قسم کا آسانی سے شکار ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق نئے اقدام سے ممکنہ طور پر ایسے بیمار باشندے علاج کی سہولیات سے دور کر دیے گئے ہیں۔ ان کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ بیماری کا شکار ہونے والے روما علاج سے قبل ہی دم توڑ جائیں۔
روما خانہ بدوشوں کی گزر بسر انتہائی کم آمدنی پر ہے۔ بسا اوقات یہ اکھٹا کیے ہوئے گھریلو سامان یا گلدستے یا پھر کوڑے دانوں سے پلاسٹک کی اشیاء جمع کر کے بیچتے ہیں اور یہی ان کا بڑا ذریعہ معاش ہے۔ ان پر چوری چکاری اور دوسرے چھوٹے قسم کے جرائم کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔ کسمپرسی میں رہنے والے یہ خانہ بدوش خیموں یا انتہائی چھوٹے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔
ع ح /ع ا (ڈی ڈبلیو)