مذہب اسلام اور صوفی موسیقی
18 اگست 2009صوفی روايات کے قائل نوجوان پاکستانی فنکار، صوفيانہ شاعری اورروک اينڈ رول موسيقی کا امتزاج پيش کرنے کی کوشش ميں ہيں۔
پاکستانی گلوکاروں نثار اور يوسف کے گھر کی ديواريں مذہبی عبارات اور آيات قرآنی سے سجی ہوئی ہيں۔ ان پر وہ شاعری بھی دکھائی ديتی ہے جس ميں اللہ کی حمد اور تعريف کی گئی ہے۔ يہ موسيقار بہت مذہبی معلوم ہوتے ہيں۔ ليکن پھر بھی وہ روک ميوزک کے شوقين ہيں۔
نثار اور يوسف کا کہنا ہے کہ صوفی موسيقی ميں راک اینڈ رول کی طرح درد و سوز ہی کا ذکر ہوتا ہے۔ دونوں بھائی روک اينڈ رول کی دھنوں پر قديم صوفی روايات کے مطابق پاکستان ميں آج کی زندگی کے بارے ميں شاعرانہ کلام گاتے ہيں۔ دونوں بھائیوں کا کہنا ہے: ’’کسان اپنے گاؤں ميں کيا محسوس کرتے ہيں۔ ان کے پاس پينے کو صاف پانی نہيں ہے۔ سڑکيں اور ہسپتال نہيں۔ جب ميں اپنی پرتعيش جيپ ميں کچی سڑکوں کے گڑھوں پر سے گزرتا ہوں تومجھے ذرا بھی محسوس نہيں ہوتا۔ ليکن گدھا گاڑی پر سفر کرنے والے کو معلوم ہے کہ يہ کس قدر تکليف دہ ہوتا ہے۔ ہمارے تمام گيتوں کا تعلق درد ہی سے ہے۔ وہ درد جو آپ اس وقت محسوس کرتے ہيں جب کوئی آپ پر گولی چلائے حالانکہ آپ غير مسلح ہوں‘‘۔
بہت سے مسلمان حلقے نثار اور يوسف کی اس موسيقی کے مخالف ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح اسلام پر مغربی اثرات پڑ رہے ہيں۔ عسکريت پسند اس سلسلے ميں طاقت کا استعمال بھی کررہے ہيں۔ پاکستانی صحافی حق نواز خان کا کہنا ہے کہ يہ ايک ثقافتی جنگ ہے جس ميں روزانہ ہی جانيں ضائع ہورہی ہيں: ’’شمالی سرحدی علاقوں اور قبائلی علاقوں کے عسکريت پسند گروپ خاص طور پر موسيقی کے مخالف ہيں۔ وہ موسيقی کی دوکانوں پر حملے کررہے ہيں تاکہ موسيقی کو مکمل طور پر روک ديا جائے۔ان کا کہنا ہے کہ موسيقی قطعی طور پر غير اسلامی ہے‘‘۔
اس کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ خاص طور سے ايشيا ميں اسلام کی ترويج ميں موسنقی کا بڑا دخل ہے۔ صوفی، مسلم حملہ آوروں کے برعکس عوام ميں گھل مل جاتے تھے اور انہی کی طرز پر زندگی گزارتے تھے۔ ان صوفی حلقوں ميں آج بھی ايک ايسے اسلام کی بات کی جاتی ہےجس ميں موسيقی اور شاعری کو روحانی زندگی کا حصہ بتايا جاتا ہے۔ حق نواز نے کہا کہ يہ صوفی اس سلسلے میں معين الدين چشتی کا حوالہ ديتے ہيں جنہيں صوفيانہ سلسلے کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت ميں بہت سے لوگ يہ سمجھتے ہيں کہ اسلام واقعی انہی صوفيوں کے ذريعے پھيلا ہے۔
پاکستان بھر ميں صوفی آج بھی مزارات پر جمع ہو کر ڈھول کی تھاپ پر اور درويشوں کے رقص کے ساتھ اللہ کی حمد بيان کرتے ہيں اور ان ميں سے بعض کو جذب کی کيفيت میں بھی ديکھا جاسکتا ہے۔ اديب اور شاعر افتخار عارف نے کہا کہ دنيا کے اس حصے ميں چشتی کی صوفيانہ طريقت بہت مقبول ہےاور اس کا رواج سہرورديہ يا نقشبنديہ سے زيادہ ہے۔ اگر آپ چشتی طريقت کے بزرگوں کو ديکھيں، مثلاً خواجہ غلام فريد يا سليمان تونساوی تو وہ سب کلاسيکی ہندوستانی موسيقی کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے تھے۔
دونوں بھائی نثار اور يوسف اسی پرانی روايت سے خود کو وابستہ محسوس کرتے ہيں۔ يوسف نے کہا کہ روک ميوزک 1950ء کے عشرے ميں شروع ہوئی۔ يہ خاص طور پر سياہ فام افراد کا دباؤ ڈالنے کا ہتھيار تھی اور وہ اپنے درد و غم کو گيتوں اور موسيقی کی شکل دے رہے تھے۔ يوسف اسی ميں اس کا ربط صوفی موسيقی کے ساتھ بھی ديکھتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ يہ وہ موسيقی ہے جو حقيقی زندگی اور غم اور دکھ بيان کرتی ہے اور موسيقی کی انقلابی قوت ہميشہ سے اسی ميں تھی۔
افتخارعارف کا کہنا ہے کہ صوفيانہ اسلامی تعليم کا مرکزی عنصر آج بھی طاقت نہيں بلکہ موسيقی کے ذريعے تبديلی لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوفيوں کے پاس آپ کو اطمينان ملتا ہے۔ صوفيوں کے لئے ماضی ميں خطرناک دور آئے تھے۔ آج اسلام کو پھر مغربی تہذيب کے چيلنج کا سامنا ہے۔ دونوں کے درميان صلح وعافيت صوفيانہ طريقے سے پيدا ہوسکتی ہے۔
رپورٹ: Jutta Schwengsbier / شہاب احمد صديقی
ادارت: عاطف بلوچ