مذہبی فسادات سیکولر بھارت کے لیے خطرہ
12 اکتوبر 2008ایک طرف اوڑیسہ میں عیسائیوں کے خلاف پر تشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف مہاراشٹر، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش اور اتر پر دیش کے کئی شہروں میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی فسادات کے بعد حالات میں کشیدگی بڑہتی جارہی ہے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اس تشویش ناک صورتحال کے پیش نظر قومی یک جہتی کانفرنس کی میٹنگ طلب کی ہے۔ یہ میٹنگ آخری مرتبہ پانچ سال قبل طلب کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں آسا م، کرنا ٹک، مہاراشٹر،اوڑیسہ، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں ہونے والے مذہبی فسادات کے علاوہ دہلی میں ہوئے مبینہ فرضی تصادم کا مسئلہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی یاBJP کی حکومت والی ریاست اتر پردیش کے برہان پور شہر میں جمعرات کو شروع ہوئے فسادات میں مرنے والوں کی تعداد دس ہوگئی ہے۔ جمعے سے اس شہر میں کرفیو نافذ ہے اور کسی بھی شر پسند کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم بھی نافذ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مختلف علاقوں میں دکانوں اور مکانوں میں لوٹ مارکی گئی۔ کانگریس پارٹی کی حکومت والی مہاراشٹر ریاست کے مختلف شہروں میں بھی حالات تشویش ناک ہیں جبکہ آندھرا پردیش میں بھی پانچ افراد کے ہلاک اور بیس سے زیادہ کے زخمی ہوئے ہیں۔
قومی یکجہتی کانسل کی رکن، شبنم ہاشمی کا کہنا ہے کہ مذہبی فسادات قومی اتحاد کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں اور حکومت اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی: ’’ اب صرف BJP کی حکومت والی ریاستوں میں ہی مذہبی فسادات نہیں ہو رہے۔ کانگریس سرکار کو سخت رویہ اپنانا ہوگا جو اس نے ابھی نہیں اپنایا۔ وہ بھی اس وقت ہندووتا کے نام پر سیاست کر رہی ہے۔ تا کہ آنے والے انتخابات میں انہیں زیادہ سے زیادہ ہندو ووٹ ملیں۔‘‘شبنم ہاشمی کا خیال ہے کہ بھارت میں اس وقت جو فسادات ہو رہے ہیں وہ صرف سیاسی ہتھکنڈے ہیں۔
قومی یک جہتی کانفرنس کی میٹنگ کیں کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی، گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی، اوڑیسہ کے وزیر اعلی نوین پٹنائیک کے علاوہ کئی بڑی سیاسی شخصیات حصہ لیں گی۔ اس میٹنگ میں ملک کے مختلف حصوں میں اقلیتوں پر ہونے ہالے حملوں اور دھشت گردی کے واقعات پر وزیر داخلہ شیو راج پاٹیل ایک رپورٹ بھی پیش کریں گے۔