مریخ کی مٹی کیسی؟ نوجوان پاکستانی محقق نے نمونہ تیار کر لیا
24 اپریل 2022بہزاد قریشی پاکستان میں کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ کے محقق ہیں اور انہیں اپنی تحقیق کے لیے زیادہ وسائل دستیاب نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ اپنی ریسرچ کے دوران مریخ کی مٹی کا نمونہ تیار کرنے میں کامیاب رہے۔
زمین کے ہمسایہ سیارے مریخ پر انسانوں کی ممکنہ آباد کاری کا موضوع طویل عرصے سے زیر بحث ہے۔ امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ناسا اور دنیا بھر کی پرائیویٹ اسپیس کمپنیاں اس بارے میں تحقیق میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے پہلا منطقی سوال تو یہ ہے کہ جن خلابازوں کو مریخ پر بھیجا جائے گا، وہ کھائیں گے کیا؟ کیا مریخ پر بھی پھل اور سبزیاں اگائے جا سکتے ہیں؟
کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ کے نوجوان محقق بہزاد قریشی نے اسی سوال کو اپنی ریسرچ کا محور بنایا اور جواباﹰ وہ ایک مقامی تجربہ گاہ میں مریخ کی مٹی کا نمونہ تیار کرنے میں کامیاب رہے۔
مریخ کی مٹی کا نمونہ ہی کیوں؟
بہزاد قریشی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ایم فل کے تھیسز پر کام شروع کیا، تو ان کی خواہش کسی بالکل نئے اور منفرد موضوع کا انتخاب کرنا تھا۔ اس سے قبل انہوں نے مریخ پر انسانوں کی ممکنہ آباد کاری کے حوالے سے تب تک ہونے والی ریسرچ کے نتائج بھی پڑھ رکھے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ انہیں پودوں کی جڑوں میں پائے جانے والے ان مخصوص بیکٹیریا پر ریسرچ کرنا چاہیے، جو نباتاتی نشو و نما میں معاونت کرتے ہیں۔ انہوں نے سوچا، ''کیا ایسے بیکٹیریا مریخ کی مٹی میں بھی نشو و نما پا سکتے ہوں گے؟ وہاں کی فضا اور ماحول ان پر کس طرح اثر انداز ہوں گے؟‘‘
اس شعبے میں سائنس دانوں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا خلائی مشن مریخ پر نہیں بھیجا جا سکا، جو وہاں سے مٹی کے نمونے زمین پر لایا ہو۔ اس لیے ناسا کے ماہرین اور دنیا بھر کے ایسٹرو بیالوجسٹ اپنی تجربہ گاہوں میں مریخ کی مٹی کے ممکنہ نمونے تیار کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایسی کوئی 'مٹی‘ بھی تجارتی بنیادوں پر دستیاب نہیں، جسے 'مریخ کی مٹی یا اس کے بنیادی اجزاء‘ کا نام دیا جا سکے۔
بہزاد قریشی کے مطابق، ''اس حوالے سے ناسا کے پاس جو ڈیٹا دستیاب ہے بھی، اسے صرف ناسا کے ایسٹرو بیالوجسٹ ہی اپنی تحقیق کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ میرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ میں کوئی خلائی سائنسدان نہیں ہوں۔ تو میرے لیے اس ڈیٹا تک رسائی ویسے بھی ممکن نہیں تھی۔‘‘
مریخ کی مٹی ہوتی کیسی ہے؟
1997ء سے 2021ء کے دوران چھ روور آربٹرز مریخ کی طرف بھیجے گئے، جو سب کے سب 'ون وے‘ تھے۔ یہ روبوٹک گاڑیاں زمین پر مریخ کی مٹی کے نمونے تو نہ لا سکیں مگر ان میں نصب کرومیٹوگرافی اور لیزر سپیکٹروسکوپی جیسے سائنسی طریقوں کے لیے استعمال ہونے والے انتہائی جدید آلات کی مدد سے انتہائی بیش قیمت معلومات ضرور حاصل ہوئیں۔
بہزاد قریشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کسی بھی سیارے کی سطح پر موجود ٹھوس بھربھرے مادے کو، جسے عرف عام میں مٹی بھی کیا جا سکتا ہے، سائنسی اصطلاح میں 'ریگولتھ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اب تک دستیاب معلومات کی بنیاد پر ناسا کے ماہرین نے مریخ کی 'ریگولتھ‘ کی کیمیائی ترکیب اور اس کے کیمیائی خواص بھی ترتیب دیے ۔ ناسا کے مطابق 'مارس ریگولتھ‘ میں سیلیکون ڈائی آکسائیڈ، فیرک آکسائیڈ، المونیم آکسائیڈ، کیلشیم آکسائیڈ اور سلفر آکسائیڈ کی بہتات ہے۔ اس کے علاوہ مارس کیورییوسٹی روور سے یہ معلومات بھی ملی تھیں کہ مریخ کی مٹی میں پانی کے مالیکیول بھی موجود ہیں۔
بہزاد قریشی کے مطابق اس کیمیائی ترکیب کو مد نظر رکھتے ہوئے ناسا کے ماہرین اپنے تجربات کے لیے مریخ کی مٹی کو 'ریپلیکیٹ‘ کرتے ہیں۔ شروع میں خود قریشی کو بھی اس 'ریگولتھ‘ کی کیمیائی ترکیب کو پوری طرح سمجھنے کے لیے گزشتہ تقریباﹰ ربع صدی کے دوران اس پر کی گئی ریسرچ کے نتائج سے استفادہ کرنا پڑا تھا۔
انتہائی کم درجہ حرارت اور عمومی طور پر نامناسب حالات
کوہاٹ یونیورسٹی کے اس محقق کے مطابق مریخ کی سطح پر درجہ حرارت انتہائی کم ہے اور وہاں ایسے دیگر عوامل کی صورت حال بھی نامناسب ہے، جنہیں کسی سیارے پر انسانی زندگی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود سائنسدان نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی نسبت مریخ پر ممکنہ طور پر انسانی آبادیاں بسانے میں زیادہ دلچسپی اس لیے رکھتے ہیں کہ ایک تو یہ سیارہ زمین سے نسبتاﹰ قریب ہے اور پھر مریخ کا ایک دن بھی زمین کے ایک دن کی طرح چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔
نتائج کتنے حوصلہ افزا؟
بہزاد قریشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی ریسرچ ایسے 'نباتات دوست‘ یا 'پلانٹ فرینڈلی‘ بیکٹیریا سے متعلق تھی، جنہیں رائزو سفیئر سول بیکٹیریا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا پودوں کی جڑوں میں پائے جاتے ہیں اور پودوں کی نشو و نما میں معاونت کرتے ہیں۔ بہزاد قریشی یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا مریخ کی مٹی اور آب و ہوا میں بھی یہ بیکٹیریا نشو و نما پا سکتے ہیں؟
مریخ کی مٹی کا نمونہ تیار کرنے کے لیے قریشی پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں کئی مختلف پہاڑی مقامات پر گئے، جو دیکھنے میں بظاہر مریخ کی تصویروں سے کافی مشابہت رکھتے تھے۔ انہوں نے ان میں سے سات مقامات کا انتخاب کر کے وہاں کی مٹی کے نمونوں کے کیمیائی اور طبعی خواص کو ایک پیچیدہ اور متفرق سائنسی تکنیک استعمال کرتے ہوئے لیبارٹری میں جانچا۔ ایسے تجربات کے ایک طویل سلسلے کے بعد بہزاد قریشی مٹی کا جو نمونہ تیار کرنے میں کامیاب رہے، وہ 70 فیصد تک مریخ کی مٹی سے ملتا جلتا ہے اور اسے 'کے پی مارس ون‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ڈوئچے ویلے کو بتایا گیا کہ اس ریسرچ سے نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ پلانٹ فرینڈلی بیکٹیریا مریخ کی مٹی میں نشو و نما تو نہیں پا سکتے مگر وہ مریخ کے ماحول میں زندہ ضرور رہ سکتے ہیں۔ مریخ کا اوسط درجہ حرارت منفی 60 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے، جو ایسے بیکٹیریا کی افزائش کے لیے موزوں نہیں، تاہم اگر اس درجہ حرارت میں تھوڑا اضافہ ہو سکے، تو ایسے بیکٹیریا وہاں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔
ریسرچ کے دوران چیلنجز اور مستقبل کے ارادے
بہزاد قریشی کے مطابق ان کی تحقیق کا موضوع بالکل ہی نیا نہیں ہے، کیونکہ یہ 1950ء کے عشرے سے سائنس برادری میں زیر بحث ہے۔ یہاں تک کہ معروف ماہر فلکیات کارل سیگان نے بھی اس پر تحقیق کی تھی۔ مجموعی طور پر اس شعبے میں زیادہ تر تحقیق امریکی اور روسی سائنسدانوں نے ہی کی ہے۔
پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی نظام موجود نہیں، جس سے قریشی کو مدد مل سکتی۔ ان کی یونیورسٹی لیبارٹری میں تکنیکی سہولیات بھی بہت ناکافی تھیں۔ انہوں نے ایسٹرو بیالوجی اور جیالوجی سے متعلق انٹرنیشنل ریسرچ کے نتائج کا مطالعہ کیا اور پھر اپنی تحقیق کے لیے خود ایک منظم طریقہ کار بھی تیار کر لیا۔
ان کی ریسرچ پاکستان میں ایسٹرو بیالوجی میں کی گئی اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق تھی، جسے قریشی اب تک کئی آن لائن انٹرنیشنل کانفرنسوں اور فورمز میں پیش بھی کر چکے ہیں۔ ان کے اس کام کو ناسا کے کئی ماہرین نے بھی سراہا ہے۔
کوہاٹ یونیورسٹی کے اس نوجوان ریسرچر کی خواہش ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں بھی فلکی حیاتیات کی تعلیم و تحقیق کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ وہ پاکستان میں ایسٹرو بیالوجی کی اولین جدید ترین لیبارٹری بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔