1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسعود پزشکیان: ایران کے نئے صدر سے وابستہ توقعات؟

9 جولائی 2024

ایران کے نومنتخب صدر کو اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔ تاہم ان کے اختیارات محدود ہیں کیوں کہ حتمی فیصلوں کی طاقت ایرانی سپریم لیڈر کے ہاتھوں میں ہے۔

https://p.dw.com/p/4i3gm
ایران کے نومنتخب صدر کو اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا ہے
ایران کے نومنتخب صدر کو اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا ہےتصویر: Vahid Salemi/dpa/AP/picture alliance

ایرانیوں نے ہفتے کے روز نسبتاً اعتدال پسند مسعود پزشکیان کو اپنا اگلا صدر منتخب کر لیا۔ ان کا مقابلہ ایک انتہائی قدامت پسند، مغرب مخالف سابق ایٹمی مذاکرات کار سعید جلیلی سے تھا۔ پزشکیان دل کے سرجن ہیں اور سن 2008 سے ایرانی پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں۔ انہوں نے اس وقت کے صدر محمد خاتمی کے دور میں سن 2001 سے سن 2005 تک ملک کے وزیر صحت کے طور پر خدمات انجام دیں، جنہیں ایک اصلاحات پسند کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

69 سالہ منتخب صدر نے ''ممکنہ اعتدال پسند حکومت‘‘ اور عوام کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

ایران میں حتمی رائے کس کی ہو گی؟

اپنی انتخابی مہم کے دوران پزشکیان نے وعدہ کیا تھا کہ ایران کی اسلامی اور تھیوکریٹک حکومت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے۔ پزشکیان نے عوامی سطح پر ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا تھا اور ان کا جمہوریہ کے طاقتور سکیورٹی ہاکس اور مذہبی حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ایرانی سیاسی نظام میں ملکی صدر مملکت کا سربراہ نہیں ہوتا بلکہ حکومت کا سربراہ ہوتا ہے، جسے عوامی ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے۔

زیادہ تر اختیارات ملک کے سپریم لیڈر کے پاس ہیں اور یہ عہدہ خامنہ ای سن 1989 سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر صدر ایران کے جوہری پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے اور نہ ہی خارجہ یا سکیورٹی پالیسی میں۔ ان تمام موضوعات پر حتمی قول خامنہ ای کا ہی ہوتا ہے۔

ایران کے نومنتخب صدر کو اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا ہے
ایران کے نومنتخب صدر کو اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا ہےتصویر: moniban

مزید برآں ایرانی حکومت کے تقریباً ہر شعبے پر اب بھی بڑی حد تک قدامت پسندوں کا کنٹرول ہے، جس سے ملک کی حکمرانی پر صدر کا اثر محدود ہے۔

ایران کو بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا

اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پزشکیان معمولی تبدیلیوں کو بھی نافذ کر سکیں گے لیکن اس کے باوجود ملک کے اعلیٰ منتخب عہدیدار کی حیثیت سے ایک صدر ایرانی پالیسی پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر وہ عمر رسیدہ خامنہ ای کے جانشین کے انتخاب میں بھی براہ راست شامل ہوں گے، جو اب 85 ​​سال کے ہیں۔

ایران کے صدارتی انتخابات غزہ میں اسرائیل اور ایرانی اتحادی حماس کی جنگ اور علاقائی کشیدگی کے پس منظر میں منعقد ہوئے۔ اس محاذ پر کسی بھی قسم کی مزید کشیدگی ممکنہ طور پر ایران کو اسرائیل کے ساتھ براہ راست تنازعے میں گھسیٹ سکتی ہے۔

ایرانی معیشت کی خراب حالت پر بھی ملک میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ ملک کو بے روزگاری کا سامنا ہے، جبکہ مہنگائی تقریباً 40 فیصد پر منڈلا رہی ہے۔ اسی طرح ایرانی ریال اب ریکارڈ کم ترین سطح پر ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کے 90 ملین شہریوں میں سے ایک تہائی اب خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ گزشتہ 13 برسوں میں ایسے افراد کی تعداد میں 11 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔

ایران کے نومنتخب صدر کو اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا ہے
ایران کے نومنتخب صدر کو اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا ہےتصویر: Rouzbeh Fouladi/ZUMA Press Wire/IMAGO IMAGES

پیرس میں سکول آف مینجمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر حامد بابائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پزشکیان کے سب سے بڑے چیلنج معاشی ترقی کو بڑھانا اور افراط زر کو کنٹرول کرنا ہوں گے۔ پروفیسر بابائی کے مطابق اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ پزشکیان ان مسائل سے نمٹنے کے قابل ہوں گے۔

کیا پزشکیان مغرب سے رابطے بڑھائیں گے؟

پزشکیان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ملکی معیشت کی بحالی کا عہد کیا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے انہوں نے مغرب کے ساتھ تعاون کا وعدہ تھا کہ وہ ''ایران کو اس کی تنہائی سے نکال‘‘ اور ملک کو بین الاقوامی پابندیوں سے آزاد کرنے کی کوشش کر سکیں۔

نئے صدر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے بھی حامی ہیں۔

دوسری جانب تجزیہ کار پزشکیان کے دور حکومت میں بھی ایران میں انسانی حقوق کے حوالے سے کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتے، خاص طور پر خواتین اور بہائی کمیونٹی جیسی مذہبی اقلیتوں کے لیے کسی تبدیلی کا آنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

یوہانا نجدی (ا ا/ا ب ا)