1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلح تنازعات کے شکار بچے، آواز کی تلاش میں

9 نومبر 2010

اقوام متحدہ کے تمام معاہدے، پروٹوکول اور طریقہ کار جنگ سے متاثرہ تقریباﹰ 13.5 ملین بچوں کو تحفظ تو فراہم کرتے ہیں لیکن یہ تمام اقدامات بچوں کو ان کے والدین کی طرف سے ملنے والے پیار کا احساس دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

https://p.dw.com/p/Q3Cj
تصویر: picture-alliance / dpa

کچھ ایسے ہی احساسات ہیں علیمہ اور جوزف کے، جو اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے بچوں کے لئے بنائے گئے ایک پینل کے سامنےپیش ہوئے۔

جوزف ان ہزاروں بچوں میں سے ایک تھے، جو سوڈان میں جنگ کے باعث متاثر ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سوڈان میں خانہ جنگی کے باعث انہیں صرف 10برس کی عمر میں بندوق اٹھانا پڑی۔ 32 سالہ جوزف اس وقت صرف سات برس کے تھے، جب سوڈانی فوج نے انہیں، ان کی ماں کے ساتھ جھونپڑی میں باندھ کر اسے آگ لگا دی تھی۔ اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، "ہم لوگ زندہ جل جاتے لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا۔ شاید یہ معجزہ تھا کہ اس وقت طوفان آیا اور بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے سوڈانی فوج ہمیں اس جلتی جھونپڑی میں چھوڑ کر چلی گئی۔ میں اور میری ماں بہت مشکل سے خود کو آزاد کرکے جان بچا کر نکلے۔"

Tschad Flüchtlingskinder
سوڈان میں خانہ جنگی اور غربت نے بیشتر بچوں کا مستقبل تاریک کر رکھا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

جوزف کے بقول اس کے بعد پیش آنے والے واقعات میں وہ اپنی ماں سے بھی بچھڑ گئے اور تاحال یہ ماں بیٹا دوبارہ نہیں مل سکے، گوکہ سال 2005ء سے یہ دونوں اب ٹیلی فونک رابطے میں ہیں۔

جوزف آج کل امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہیں اور کریمینل جسٹس کے طالبعلم ہیں۔ جوزف کہتے ہیں کہ انہوں نے اس جنگ کے دوران بہت سے بے گناہ لوگوں کو جان سے ہاتھ دھوتے دیکھا ۔ کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ انہوں نے دیگر بچوں کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے چوہوں اور چمگادڑوں کو غذا کے طور پر استعمال کیا۔ وہ کہتے ہیں، "مجھے لگتا ہے کہ میرا بچپن کبھی آیا ہی نہیں۔"

جنگ میں بچوں کے ساتھ نہایت غیر انسانی رویہ اپنایا جاتا ہے اور ان سے جانورں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کتنے ہی بچے ایسے ہیں، جو بے زبان، بے آواز جانوروں کی طرح اپنی جان کھو بیٹھتے ہیں۔

ایسے ہی کچھ جذبات 21 سالہ علیمہ کے ہیں، جو طالبان کی سخت گیر حکومت کے دوران افغانستان میں اپنے خاندان کےساتھ رہائش پذیر تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں طالبان کے مظالم سے تنگ آکر ان کے خاندان نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور خالی ہاتھ بے یارومددگار پاکستان میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں منتقل ہوگئے۔ افغانستان میں اپنے اوپر گزرنے والے حالات کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اس کے باوجود کہ وہ اور جوزف مختلف تجربات سے گزرے ہیں، لیکن جس خوف اور دہشت کے سائے میں ہم پروان چڑھے وہ یکساں ہیں۔’’

سیاٹل کی واشنگٹن یونیورسٹی میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنے والی علیمہ کا کہنا ہے کہ انہیں آج بھی ڈراؤنے خوابوں میں طالبان نظر آتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، "میرے بہت سے دوست ایسے ہیں، جن کی نظروں کے سامنے ان کے والد اور بھائیوں کو قتل کر دیا گیا۔ ایسے کئی خاندان ہیں جن کی کہانی میری کہانی سے بھی زیادہ دردناک ہے۔ یہ حالات ایسے تھے جو میں چاہ کر بھی نہیں بھلا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان حالات کو لوگوں تک پہنچانا چاہتی تھی تاکہ ایسے جنگ زدہ علاقوں میں موجود لاکھوں بچوں کی مدد ہو سکے۔’’

علیمہ نے امید ظاہر کی، "ہو سکتا ہے کہ ایک دن ایسا آجائے جب مجھے لگے کہ میری وجہ سے ایسے بچوں کی مدد ہوئی ہے۔ شاید تب میں طالبان کے ان ڈراؤنے خوابوں سے جان چھڑا سکوں۔"

واضح رہے کہ جنوبی سوڈان میں جنگ سے متاثرہ ایسے بچوں کی تعداد کافی کم ہے جنہیں کیمپوں سے جانے کی اجازت دی جارہی ہے جبکہ صومالیہ، نیپال، برونڈی اور دیگر ممالک میں ایسے بے شمار بچے ہیں جو جنگوں کی وجہ سے نہ صرف در بدر ہیں بلکہ اپنے والدین سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

ein Jahr Obama Flash-Galerie
افغانستان میں گزشتہ دس برس سے نیٹو افواج طالبان کے خلاف لڑ رہی ہیںتصویر: AP

جنگ زدہ علاقوں میں موجود بچوں کی بہبود کے حوالے سے اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی رادھیکا کماراسوامی کا کہنا ہے کہ ایسے بچے اپنے ہی ملک میں اجنبیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ کماراسوامی کے بقول یہ ذمہ داری اس ملک کی حکومت کی ہونی چاہئے کہ وہ جنگ سے متاثرہ بچوں کی دیکھ بھال کرے۔ وہ کہتی ہیں، "ایسے بہت سے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان بچوں کی ذمہ داری اقوام متحدہ اٹھائے، جونہیں ہونا چاہئے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے وضع کردہ رہنما اصولوں کے مطابق ایک خودمختار ریاست کو خود اپنے شہریوں اور باشندوں کی نہ صرف حفاظت کرنی چاہئے بلکہ ان کی تعلیم اور جذباتی سہارے کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ ان بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ایسے بچوں کی خرید و فروخت اور زبردستی عصمت فروشی میں بھی انہیں استعمال نہیں کیا جائے گا۔"

کماراسوامی کے بقول نئی جنگی حکمت عملیوں کی بدولت بچوں کے لئے خطرات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ مسلح تنازعات میں بچوں کو استعمال کرنے سے بچانے اور ایسے بچوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر ابھی تک 56 رکن ممالک نے دستخط نہیں کئے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: ندیم گِل