مسلم دنیا میں پائے جانے والے اختلافات کیسے دور ہو سکتے ہیں؟
2 جنوری 2020تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں پر زوال آتا ہے، ان میں سے بہت سی اپنی فکری اور عملی تربیت کو درست سمت دے کر اپنے سیاہ دور سے نکل بھی جاتی ہیں۔ لمحہ فکریہ وہ ہوتا ہے جب کئی سو سال تک دنیا کے مختلف حصوں پر حکمرانی کرنے اور علم و دانش کا گہوارہ مانی جانے والی کوئی قوم ایسی تنزلی کا شکار ہو جائے کہ وہ اپنا اجتماعی اور انفرادی وقار کھو بیٹھے۔ پھر ایسی کوئی قوم شکست و ریخت کا شکار تو ہو مگر اسے یہ ادراک بھی نہ ہو کہ اُس کا دھارا کس سمت بڑھ رہا ہے اور اس کی آئندہ نسل کی شناخت مہذب معاشروں میں 'انتہا پسندی اور پسماندگی‘ سے تعبیر کی جائے گی۔
آج اسلامی دنیا کا شیرازہ بری طرح بکھر چکا۔ یہ تقسیم گرچہ مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ رہی ہے تاہم تقسیم کی یہ خلیج روز بروز پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مسلمان خود اپنی ہی تاریخ سے واقف نہیں مگر خود کو مہذب بنانا چاہتے ہیں۔
آج کی دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ معاشروں، ملکوں اور اقوام کے مابین فاصلے کم ہوئے ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اپنی تاریخ سےسبق سیکھتے ہوئے مغربی دنیا افہام و تفہیم، رواداری اور بھائی چارگی کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد بھی قائم کر چکی ہے۔ اس نے اپنی توجہ تعلیم، صحت، اقتصادی ترقی و خوشحالی اور پر امن باہمی بقا پر مرکوز رکھی اور اس کے نتائج کم و بیش تمام مغربی معاشروں کی صورتحال سے عیاں ہیں۔
دوسری جانب مسلم دنیا ہے، جو تیل اور دیگر معدنی ذخائر سے مالا مال بھی ہے اور اس کے پاس افرادی قوت کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مگر سیاسی انتشار اور فکری بحران مسلم دنیا کے سب سے بڑے المیے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی سیاست کا میزان جس طرح غیر متوازن ہے، اس کے بھی بہت منفی اثرات مسلم دنیا پر پڑے ہیں۔ تاہم کسی اور کو اس کا قصور وار یا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ مسلم معاشروں میں پائی جانے والی موجودہ زبوں حالی کے مضمرات کیا ہیں، وہ کون سی کمزوریاں ہیں جو مسلمانوں کو بحران در بحران اور ایک سے بڑھ کر ایک انتشار سے دوچار کر رہی ہیں۔
کہتے ہیں کہ 'جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہوتی ہے‘۔ اگر مسلم دنیا اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے، تو اسے اپنے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ اپنے عقیدے کو ڈھال یا ہتھیار بنا کر مسلم معاشرے نہ تو ترقی کی دوڑ میں آگے جا سکیں گے اور نہ ہی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیے بغیر اپنے اجتماعی اور انفرادی مفادات کی جنگ جیت پائیں گے۔