1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم مخالف فسادات کو ہوا دینے پر فیس بک کی معافی

13 مئی 2020

سری لنکا ميں دو برس قبل پھوٹنے والے مسلمان مخالف فسادات ميں فيس بک پر پھيلنے والی افواہوں اور نفرت آميز مواد کا کردار کافی اہم تھا۔ تحقيقات کے بعد فيس بک انتظاميہ نے اب معافی مانگ لی ہے۔

https://p.dw.com/p/3cA32
Sri Lanka Kandy - Sri Lanka verhängt Ausnahmezustand
تصویر: Reuters/Stringer

سماجی رابطوں کی ويب سائٹ فيس بک کی انتظاميہ نے سری لنکا ميں دو برس قبل ہونے والے نسلی فسادات ميں اس پليٹ فارم کے کردار پر معافی مانگ لی ہے۔ تحقيقات سے پتا چلا ہے کہ فيس بک کے ذريعے پھيلنے والی افواہيں اور نفرت آميز مواد ممکنہ طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کا باعث بنے۔

سن 2018 کے اوائل ميں سری لنکا ميں پھوٹنے والے فسادات ميں سوشل ميڈيا کا کرادار نماياں تھا۔ بدھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثريت والے ملک ميں فسادات کے دوران نہ صرف کئی مساجد کو نذر آتش کيا گيا بلکہ مسلمانوں کے کاروباروں اور ديگر اثاثہ جات کو بھی نشانہ بنايا گيا۔ ان فسادات ميں کم از کم تين افراد ہلاک اور بيس ديگر زخمی ہو گئے تھے۔ نتيجتاً کولمبو حکومت نے ہنگامی حالت نافد کر دی تھی اور فيس بک پر بھی عارضی پابندی عائد کرنی پڑی تھی۔

حقائق تک پہنچنے کے ليے فيس بک کی انتظاميہ نے اس معاملے کی خود تحقيقات کرائيں۔ تحقيقات کے نتائج سامنے آنے کے بعد بدھ تيرہ مئی کو کمپنی انتظاميہ نے بلوم برگ نيوز کو جاری کردہ اپنے بيان ميں يہ کہا کہ کمپنی ايسے متنازعہ معاملے ميں اپنے پليٹ فارم کے استعمال پر مايوس ہے۔ فيس بک نے کہا کہ کمپنی فسادات کے انسانی حقوق سے متعلق نتائج سے واقف ہے اور اس پر شرمندہ ہے۔ معاملے کی تحقيقات کی ذمہ داری ’آرٹيکل ون‘ نامی کنسلٹنسی کمپنی کو سونپی گئی تھی۔ ’آرٹيکل ون‘ نے اپنے بيان ميں کہا کہ فسادات سے شروع ہونے سے قبل فيس بک کی انتظاميہ پليٹ فارم پر موجود افواہيں اور نفرت آميز مواد ہٹانے ميں ناکام ثابت ہوئی۔

فيس بک نے يقين دہانی کرائی ہے کہ پليٹ فارم ميں کئی تراميم متعارف کرا دی گئيں ہيں، جن سے مستقبل ميں انسانی حقوق کا بہتر تحفظ ممکن ہو سکے گا۔ سری لنکا ميں فيس بک کے صارفين کی تعداد 4.4 ملين سے زائد ہے۔

ع س / ع ا، اے ايف پی