مسلم مہاجرین کا داخلہ روکے رکھیں گے، ہنگری کے وزیراعظم
22 جولائی 2017خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہنگری کے مہاجرین اور مسلم مخالف وزیراعظم وکٹور اوربان کے حوالے سے بتایا ہے کہ قومی سرحدوں پر رکاوٹیں نصب کرنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ یورپی یونین کے رہنماؤں اور سوروز کی کوششوں کا ناکام بنا دیں۔ ہفتے کے دن رومانیہ میں ایک ثقافتی فیسٹیول میں اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ وسطی یورپی ریاستیں مہاجرین اور تارکین وطن کی غیر قانونی آمد کو روکنے کی خاطر سرحدی رکاوٹوں کے حق میں ہیں۔
وکٹور اوربان کو امريکی ارب پتی سے مسئلہ کيا ہے؟
ہنگری: اوربان کا مہاجرین سے متعلق نئے سخت قانون کا دفاع
ہنگری: تمام مہاجرین کو حراست میں لینے کا قانون منظور
کٹر نظریات کے حامل وکٹور اوربان کے مطابق یورپی یونین اور ہنگیرئن نژاد امریکی ارب پتی جورج سوروز کی کوشش ہے کہ ہنگری میں بھی مسلمان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہو جائے۔ تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
اوربان کے بقول ان کے دور اقتدار میں ’مغربی یورپی خطے کے مسیحی ہنگری میں خود کو محفوظ تصور کرتے رہیں گے‘۔
وکٹور اوربان کا خیال ہے کہ یورپ میں مسلمان مہاجرین کی آمد کے سبب یورپ کی بنیادی مسیحی اقدار کو خطرہ ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ملک میں مہاجرین کی آمد کی سخت مخالفت جاری رکھی ہوئی ہے۔
ہفتے کے دن بھی انہوں نے دہرایا کہ وہ ایسے مہاجرین کی ہنگری میں آباد کاری نہیں ہونے دیں گے، ’’جو ہنگری کی ثقافتی پہچان کو بدل کر رکھ سکتے ہیں۔‘‘
یورپی یونین کی طرح ہنگیرئن نژاد امریکی ارب پتی جورج سوروز بھی یورپ میں مہاجرین کی آباد کاری کے حق میں ہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران اوربان متعدد مرتبہ سوروز کو انہی خیالات کے باعث ہدف تنقید بنا چکے ہیں۔
مہاجرین کے حالیہ بحران کی وجہ سے یورپی ممالک کو متعدد مسائل کا سامنا ہے جبکہ یورپی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ شورش زدہ اور جنگوں سے تباہ حال خطوں سے مہاجرت اختیار کر کے یورپی آنے والے لوگوں کو تمام یورپی ممالک میں یکساں طور پر آباد کیا جائے۔
تاہم ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان اس یورپی منصوبے کے خلاف ہیں۔ وہ ماضی میں بھی مسلمانوں اور مہاجرین سے متعلق سخت ترین بیانات دیتے آئے ہیں جب کہ سن 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے عروج کے دور میں ہنگری ہی وہ پہلا یورپی ملک تھا، جس نے اپنی سرحدیں تارکین وطن کے لیے بند کی تھیں۔ تب ہنگری نے سربیا کی سرحد پر ایک طویل دیوار قائم کر دی تھی، جہاں آج بھی پولیس اور فوج کی بڑی نفری تعینات ہے۔