مسلمان مہاجرین کی وجہ سے جرمن عیسائیت کے قریب آئیں گے،میرکل
7 دسمبر 2015ساٹھ سال قبل انیس سو پچاس کی دہائی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی جرمنی کی تعمیر اور ترقی کے لیے مختلف ممالک سے ’مہمان مزدور‘ جرمنی آئے تھے۔ ان افراد کی اکثریت تعلق ترک مسلمانوں پر مبنی تھی۔
اس کے علاوہ بلقان ریاستوں سے بھی بہت بڑی تعداد جرمنی آئی تھی۔ ’مہمان مزدوروں‘ نے جرمنی کی معیشت کی مضبوطی میں اہم کردار کرنے کے ساتھ ساتھ جرمن معاشرے کو بھی کثیر النسلی بنایا ہے۔
اسی سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا، ’’آپ لوگوں کی اکثریت اس بات سے واقف ہے کہ جرمنی کیا پیش کر سکتا ہے۔‘‘ میرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ساٹھ برس پہلے آنے والے ’مہمان مزدوروں‘ اور ان کی اگلی نسلوں کی ایک سے زائد ثقافتوں کے ساتھ وابستگی عالمگیریت کے باعث تیزی سے سکڑتی دنیا میں ’ناقابل یقین طور پر فائدہ مند‘ ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی کو بھی اپنی اصل شناخت کو بھولنا نہیں چاہیے۔
میرکل کے خطاب کے کچھ دیر بعد ہی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے ایک پریس کانفرس میں بتایا کہ سال کے آغاز سے لے کر نومبر کے اختام تک 965000 تارکین وطن جرمنی پہنچے ہیں۔
میرکل نے تارکین وطن کے جرمن معاشرے میں انضمام کو جرمن شہریوں اور مہاجرین کے درمیان یکجا ہونے کا دوطرفہ عمل قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا، ’’اگر کوئی بائبل اس لیے کھول کر پڑھتا ہے کہ کوئی اور قرآن کا حوالہ دے رہا ہے تو یہ بری بات نہیں ہے کیوں کہ جرمنوں نے بھی بائبل کا اتنا مطالعہ نہیں کر رکھا جتنا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔‘‘
سابقہ کیمونسٹ جرمنی کے ایک پروٹسٹنٹ گھرانے میں پیدا ہونے والی انگیلا میرکل کو مہاجرین دوست پالیسی اپنانے پر اپنے اتحادیوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔