مسيحی بچی کی گرفتاری پر امريکا کی تشويش
21 اگست 2012امريکی دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوريا نولينڈ نے واشنگٹن ميں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے مسیحی بچی کی گرفتاری کو پریشان کن قرار ديا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’ہمارا خيال ہے کہ اس سلسلے ميں پاکستانی صدر کا اقدام قابل تعريف ہے اور ہم پاکستان پر يہ زور ڈالتے ہيں کہ وہ اپنے ملک ميں موجود اقليتوں کے علاوہ ملک ميں بسنے والی خواتين اور کم عمر لڑکيوں کی حفاظت کو بھی يقينی بنائيں‘۔ وکٹوريا نولينڈ نے پاکتانی حکام سے يہ بھی کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقيقات شفاف انداز ميں کريں۔
اس سے قبل گزشتہ روز پاکستانی صدر آصف علی رزداری ملکی وزارت داخلہ کو ہدايت جاری کر چکے ہيں کہ وہ اس معاملے پر جامع رپورٹ پيش کرے۔
گرفتار شدہ بچی کا نام رِمشا ہے اور اس کی عمر 10 اور 13 برس کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ اس بچی کو Down's Syndrome کے عارضے میں مبتلا قرار دیا جا رہا ہے اور اس پر الزام ہے کہ اس نے مبینہ طور پر قرآن کے چند صفحات جلائے تھے۔
پاکستان میں آ ج کل رمشا کی حراست کا واقعہ سماجی اداروں اور ميڈيا پر ايک اہم موضوع بنا ہوا ہے۔ خواتين کے حقوق کے ليے کام کرنے والے ادارے وومنر ايکشن فورم کی ترجمان طاہرہ عبداللہ نے رمشا کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوليس کو اس معاملے ميں بچوں کے قوانين کے مطابق کام کرنا چاہيے تھا۔ طاہرہ عبداللہ نے پوليس اہلکاروں پر الزام بھی عائد کيا کہ وہ سماجی اداروں کے کارکنان اور وکلاء کو بچی سے ملنے کی اجازت نہيں دے رہے۔ دوسری جانب آل پاکستان مائينارٹيز الائنس کے سينيئر اہلکار طاہر نويد چوھدری نے بھی يہ مطالبہ کيا ہے کہ وہ اس معاملے کا فوری حل چاہتے ہيں۔
نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق پاکستان ميں مذہبی عدم برداشت پر بحث جاری ہے۔ ملک ميں نافذ توہين رسالت کے قانون کے تحت اس کے مرتکب شخص کو موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ سن 2011 ميں توہين رسالت کے متنازعہ قانون پر بات کرنے کی وجہ سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثير کو ان ہی کے گارڈ نے گولياں مار کر ہلاک کرديا تھا۔ اس واقعے کے دو ماہ بعد ہی پاکستان ميں اقلیتوں کے وزير شہباز بھٹی کو بھی توہين رسالت کے قانون کی مخالفت کرنے پر دہشت گردانہ کاروائی کا نشانہ بنايا گيا تھا۔
as/ai/AFP