مسیحی مذہب اختیار کرنے والے بنگلہ دیشی کا قتل
22 مارچ 2016مقامی پولیس کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد دو تھی جبکہ 68 سالہ حسین علی کو کوری گرام نامی علاقے میں اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ صبح کی سیر کے لیے اپنے گھر سے نکلے تھے۔ پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد بتایا ہے کہ حسین علی جائے واردات پر فوری ہلاک ہو گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ مقتول کے گلے پر کسی تیز دھار آلے سے وار کیا گیا تھا۔
کوری گرام کے ضلعی پولیس افسر تبارک اللہ کے مطابق حملہ آوروں نے خوف کی فضا پیدا کرنے کے لیے وہاں ایک دیسی ساختہ پٹرول بم بھی پھینکا اور ایک موٹر سائیکل جائے واردات پر ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اس پولیس افسر کے مطابق حسین علی نے سن 1999 میں مذہب اسلام چھوڑتے ہوئے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ اس پولیس اہلکار کے مطابق لازمی نہیں ہے کہ یہ کوئی مذہبی واقعہ ہو کیوں کہ یہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق مقتول نہ تو کوئی پادری تھا اور نہ ہی کوئی معروف عیسائی تھا بلکہ ان کے اہلخانہ میں جائیداد کے معاملے پر بھی تنازعہ چل رہا تھا اور ہو سکتا ہے کہ یہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ بھی ہو سکتا ہے۔
ابھی تک کسی بھی تنظیم یا گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تقریباﹰ تمام حملوں کی ذمہ داری ایسے عسکریت پسند قبول کر چکے ہیں، جو داعش کے ساتھ منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے داعش نے اپنی ویب سائٹ پر یہ اعلان کیا تھا کہ کالی گنج میں سنی سے شیعہ ہونے والے شخص کو بھی انہوں نے ہلاک کیا تھا۔ اسی طرح اس گروپ نے جنوری میں مسیحی مذہب اختیار کرنے والے ایک دوسرے شخص کو بھی قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت ایسے دعوؤں کو مسترد کرتی ہے کہ ان کے ملک میں داعش کوئی وجود رکھتی ہے۔ حکومت کے مطابق ان تمام تر حملوں میں ملکی عسکری اور کاالعدم گروپ جمعیت المجاہدین ملوث ہے۔
بنگلہ دیش گزشتہ تین برسوں سے سیاسی بدامنی کا شکار چلا آ رہا ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی سیاسی بحران حکومت مخالفین کو شدت پسندی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔