مشرف کیس کا تفصیلی فیصلہ: بڑھتی ہوئی سیاسی حدت
19 دسمبر 2019خصوصی عدالت کی طرف سے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے نے نہ صرف کئی تنازعات کھڑے کر دیے ہیں بلکہ ملک میں ایک بار پھر یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ اداروں کے درمیان کشیدگی بڑھے گی، جو کسی غیر معمولی واقعے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
اس فیصلے کا سب سے زیادہ متنازعہ حصہ وہ پیرا گراف ہے جس میں جسٹس وقار سیٹھ نے سابق صدر جنرل مشرف کی سزا کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ان کی لاش کو ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔ اس حصے سے نہ صرف جسٹس وقار کے ساتھی جج نے اختلاف کیا بلکہ سول سوسائٹی نے بھی ان الفاظ کی سخت مذمت کی ہے۔ ٹوئٹر پر کئی نامی گرامی افراد کو یقین نہیں آرہا کہ یہ الفاظ فیصلے کا حصہ ہیں۔ دو ججوں کی اکثریت سے آنے والے اس فیصلے پر سندھ ہائیکورٹ کے جج نذیر اکبر نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا جس کے مطابق مشرف نے آئین کو منسوخ نہیں کیا بلکہ اسے معطل کیا اور معطل کیے جانے کی شِق آئین میں بعد میں آئی۔ جس کی وجہ سے اس کا اطلاق اس سے قبل کے اقدام پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے میں جسٹس وقار نے یہ بھی لکھا کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جن فوجی افسران نے مشرف کی اعانت کی تھی ان کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جائے۔
سول سوسائٹی نے اس فیصلے کے متنازعہ پیراگراف پر افسوس کا اظہار کیا ہے جب کہ فوج نے بھی ان الفاظ کو ہدف تنقید بنایا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں اس حصے میں استعمال کی جانے والے زبان کو اقدار کے خلاف قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلے کے مندرجات سے فوج کے وہ خدشات درست ثابت ہوئے جس کا اظہار پہلے کر دیا گیا تھا۔ جنرل غفور کا کہنا تھا کہ فوج ایک ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک خاندان ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ فوج نہ صرف ملک کی حفاظت کرنا جانتی ہے بلکہ اپنے ادارے کے وقار کا تحفظ بھِی کرنا جانتی ہے۔
اس فیصلے کے حوالے سے آج آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات بھی ہوئی اور بعد ازاں وفاقی وزراء فروغ نسیم، شہزاد اکبر اور فردوس عاشق اعوان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جسٹس وقار کے خلاف ریفرنس بھیجا جائے گا اور یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ انہیں کام کرنے سے روکا جائے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ موجود وفاقی وزیر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔ وفاقی وزراء نے بھی پیرا چھیاسٹھ کی لفاظی پر سخت تنقید کی اور اسے شرمناک قرار دیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے ڈاکٹر مہدی حسن نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں ان کے یہ جملے انتہائی نا مناسب ہیں اور انہیں یہ بالکل نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے تجزیہ نگار ڈاکٹر عمار جان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی قبائلی معاشرہ نہیں کہ جہاں اس قسم کی سزا کی بات کی جائے: ''ایسا تو جاگیردارانہ اور قبائلی معاشروں میں کیا جاتا ہے۔ مشرف کی سزا کا فیصلہ کافی تھا اس میں لاش لٹکانے کی بات کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ مہذب معاشروں میں اس طرح کی زبان استعمال نہیں کی جاتی۔ اس سے بہت منفی تاثر جائے گا اور اس پر بہت تنقید بھی ہوگی۔‘‘
ملک کے کئی حلقے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے اس حصے کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں جس میں انہوں نے اپنے ادارے کے وقار کی حفاظت کی بات کی ہے۔ کچھ حلقے یہ خیال کر رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں فوج کی بہت بدنامی ہو رہی ہے اور فیصلے میں مشرف کے ساتھی فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی بات پر فوج میں سخت اشتعال ہے اور یہ کہ فوج ایسے معاملات میں کوئی انتہائی اقدام بھی اٹھا سکتی ہے۔ تاہم معروف تجزیہ نگار ضیا الدین کے خیال میں فوج کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتی: ''ملک کی معیشت کا بُرا حال ہے۔ اگر انتہائی اقدام سے مراد کوئی غیرجمہوری قدم ہے تو فوج ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ ایسی صورت میں ملک پر پابندی لگ جائے گی۔ کوئی امداد نہیں ملے گی۔ آئی ایم ایف بھاگ جائے گا۔ تو میرا نہیں خیال کہ آرمی ایسا کچھ کرے گی۔ ان کے جوشیلے بیانات اپنے لوگوں کو مطمئین کرنے کے لیے ہیں لیکن در حقیقت وہ صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘