مشرق وسطیٰ امن عمل:مذاکرات پر حماس کی تنقید
3 ستمبر 2010واشنگٹن میں اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے مابین ہونے والے مذاکرات پر حماس تنظیم کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ حماس کے دھڑے القاسم بریگیڈ کے ترجمان نے بیت اللحم نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے اور حماس ان مذاکرات کو تسلیم نہیں کرتی اور حماس کی جانب سے اسرائیل پر اسی طرح سے حملے جاری رہیں گے۔ حماس سمیت 13مسلح گروپوں نے ایک ایسا مرکز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جہاں وہ اسرائیل کے خلاف اپنے اپنے منصوبوں پر تبادلہ خیال کریں گی۔
ان تنظیموں کی جانب سے یہ بیان اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کے مابین ہونے والے مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے ہر دو ہفتوں بعد امن عمل میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے ایک سال کے دوران ہی مشرق وسطٰی کے تنازعے کا حل تلاش کرنے کا اعادہ بھی کیا ہے۔ حماس کے مطابق ماضی میں بھی ایسے کئی فیصلے کئے جا چکے ہیں لیکن وہ سب دھوکہ تھے اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات صحیح انداز میں شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہو چکے ہیں۔
ساتھ ہی اس تنظیم نے گزشتہ روز اسرائیل میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا۔ مزید یہ کہ وہ کسی بھی وقت اسرائیل میں کسی جگہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ حماس کے بقول گزشتہ دنوں کئے جانے والے حملے یہودی آباد کاری اور مغربی کنارے میں اسرائیلی مظالم کا جواب تھے۔
دوسری جانب عرب ذرائع ابلاغ میں بھی ان مذاکرات پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ روزنامہ حیات نے لکھا کہ ان مذاکرات کا نتیجہ اُمید کے مطابق نہیں نکلا اور ساتھ ہی اس اخبار نے حماس کو شامل نہ کرنے پر بھی تنقید کی۔ تاہم اردن کے اخبارات نے بیس ماہ بعد اسرائیل اور فلسطین کے مابین مذاکرات کے تازہ دور کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تعطل کا شکار امن عمل کا دوبارہ شروع ہونا عسکریت پسندوں اور امن مخالفین کی شکست ہے۔ حکومت کے اخبار Al Rai نے لکھا ہے کہ مذاکرات کی دوبارہ بحالی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ تنازعے کا حل اور خطے میں دیرپا امن قائم ہونے کے امکانات ابھی بھی موجود ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: ندیم گِل